میر عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

بے کلی دل ہی کی تماشا تھی
برق میں ایسے اضطراب کہاں

خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں

ہستی اپنی ہے بیچ میں پردا
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں

گریہ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلا نوش کو شراب کہاں

عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو
یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں

داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں

محو ہیں اس کتابی چہرے کے
عاشقوں کو سرِ کتاب کہاں

عشق کا گھر ہے میر سے آباد
ایسے پھر خانماں خراب کہاں


از میر تقی میر
 

فرخ منظور

لائبریرین
وارث صاحب بہت شکریہ پسند کرنے کے لئے۔ یہ بھی بتائیے کہ میری غزل اور میر کی یہ غزل کیا ایک ہی بحر میں ہیں؟ قافیہ اور ردیف تو ایک ہی ہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب فرخ۔ آپ کے انتخاب پر غالب کا شعر یاد آتا ہے

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب فرخ۔ آپ کے انتخاب پر غالب کا شعر یاد آتا ہے

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

بہت بہت شکریہ جویریہ صاحبہ۔ بحر کا تو مجھے علم نہیں لیکن اسی قافیہ ردیف میں میرا بھی ایک شعر ہے۔

کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کئے
میرے فرّخ ابھی حساب کہاں
 

جیہ

لائبریرین
ہاہا!‌ بقول غالب

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد
صورت آپ کی دیکھا چاہئے
:grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب بہت شکریہ پسند کرنے کے لئے۔ یہ بھی بتائیے کہ میری غزل اور میر کی یہ غزل کیا ایک ہی بحر میں ہیں؟ قافیہ اور ردیف تو ایک ہی ہیں۔

جی ایک ہی بحر میں ہیں، آپ نے اپنی غزل میں شاید لکھا تھا کہ آپ نے داغ کی زمین استعمال کی ہے لیکن داغ نے میر کی زمین استعمال کی تھی اور بشیر بدر کی اسی زمین میں غزل کی طرف بھی اعجاز صاحب نے اشارہ کیا تھا :)
 
یہ لوگ اپنی اپنی زمینیں کیوں استعمال نہیں کرتے۔ جسے کم پڑے وہ کئی منزلہ عمارت کھڑی کر لے پر دوسروں کی زمین وہ بھی بلا اجازت۔۔۔۔۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی ایک ہی بحر میں ہیں، آپ نے اپنی غزل میں شاید لکھا تھا کہ آپ نے داغ کی زمین استعمال کی ہے لیکن داغ نے میر کی زمین استعمال کی تھی اور بشیر بدر کی اسی زمین میں غزل کی طرف بھی اعجاز صاحب نے اشارہ کیا تھا :)

شکریہ وارث صاحب۔ اسی لئے یہ غزل پوسٹ کی تھی کہ داغ، بشیر بدر اور میری یعنی تینوں کی قلعی کھل سکے۔ ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ لوگ اپنی اپنی زمینیں کیوں استعمال نہیں کرتے۔ جسے کم پڑے وہ کئی منزلہ عمارت کھڑی کر لے پر دوسروں کی زمین وہ بھی بلا اجازت۔۔۔۔۔ :)

حضور ہمارے استادان مرتے وقت یہ زمین چھوڑ گئے تھے سو اسی پر عمارت کھڑی کرلی۔ ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اختراع تو نہیں بگاڑا ضرور تھا:)

اصل شعر یہ ہے
چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد؎
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

میں نے تو آپ ہی کے ٹائپ شدہ دیوان سے صورت والے تمام اشعار چھان ڈالے لیکن مجھے یہ شعر نہیں ملا :confused:
 

جیہ

لائبریرین
غزل نمبر 219

مطلع ہے

چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
 
Top