میر ماہِ صیام آیا، ہے قصدِ اعتکاف اب - میر

فرخ منظور

لائبریرین
ماہِ صیام آیا، ہے قصدِ اعتکاف اب
جا بیٹھیں میکدے میں مسجد سے اُٹھ کے صاف اب

مسلم ہیں رفتہ رُو کے کافر ہیں خستہ مو کے
یہ بیچ سے اُٹھے گا کس طور اختلاف اب

جو حرف ہیں سو ٹیڑھے خط میں لکھے ہیں شاید
اُس کے مزاج میں ہے کچھ ہم سے انحراف اب

مجرم ٹھہر گئے ہم پھرنے سے ساتھ تیرے
بہتر ہے جو رکھے تُو اس سے ہمیں معاف اب

گو لگ گیا گلے میں، مت کھینچ تیغ مجھ پر
اپنے گنہ کا میں تو کرتا ہوں اعتراف اب

کیا خاک میں ملا کر اپنے تئیں مُوا ہے
پیدا ہو گورِ مجنوں تو کیجیے طواف اب

کھنچتے ہیں‌ جامے خوں میں کن کن کے میر دیکھیں
لگتی ہے سرخ اُس کے دامن کے تئیں سنجاف اب

(میر تقی میر)
 

سارہ خان

محفلین
گو کہ کچھ الفاظ میری سمجھ میں نہیں ائے ہیں ۔۔ لیکن موقع کے حساب سے زبردست غزل دھونڈ کے لائے ہیں ۔۔۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب اور سارہ خان اور جو الفاظ سمجھ نہیں آئے انہیں الگ سے پوچھ لیں - مطلب بتا دوں گا - :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج یکم رمضان ہے سو ایمان تازہ کرنے کے لئے دوبارہ یہ غزل پڑھ رہا ہوں۔ ویسے بھی کاشفی صاحب نے ماہِ صیام کے حوالے سے ایک نظم پوسٹ کی تو میر کی اس غزل کو دوبارہ پڑھنے کا خیال آیا۔ سو آپ بھی پڑھیے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
آج یکم رمضان ہے سو ایمان تازہ کرنے کے لئے دوبارہ یہ غزل پڑھ رہا ہوں۔ ویسے بھی کاشفی صاحب نے ماہِ صیام کے حوالے سے ایک نظم پوسٹ کی تو میر کی اس غزل کو دوبارہ پڑھنے کا خیال آیا۔ سو آپ بھی پڑھیے۔ :)

اس کا بھی مطالعہ کیجیے، ایمان 'تازہ تر' ہو جائے گا ;)
 
Top