انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

انتخاب کلامِ میر دیوانِ اول


میر کے پانچ اہم انتخابات کا مجموعہ

انتخاب

نواب عماد الملک سید
مولوی عبدالحق
حسرت موہانی
اثر لکھنوی
محمد حسن عسکری

۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
الف


تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

معنم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو غور تھا

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سہپر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

ق

کل پاوں ایک کاسہء سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میر
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا


 
[align=center:77a299e74e]

کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں، دلِ غم دیدہ کہیں تھا

کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا

آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے ، لیکن
ہونٹھوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا

اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جودرد و الم تھا، سو کہے تُو کہ کہ وہیں تھا

جانا نہیں کچھ، جز غزل آکر کے جہاں میں
کُل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا

نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل مُلک یہ سب زیرِ نگیں تھا

مسجد میں امام آج ہوا آ کے کہاں سے
کل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا

[/align:77a299e74e]
 
نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاد وہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

لطف اگر یہ ہے بتاں صندلِ پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرہء نورانی کا

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیحِ سلیمانی کا

درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں
سَیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسفِ زندانی کا

کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی اپنی بھی نادانی کا

وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب
ہم نے سرنامہ کیا کاغذِ افشانی کا

اس کا منھ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میر ایسی مسلمانی کا

 
جامہء مستیِ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
دامنِ تر کا مرے، دریا ہی کا سا پھیر تھا

دیر میں کعبے گیا میں میں خانقہ سے اب کے بار
راہ سے مے خانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا

بلبلوں نے کیا گُل افشاں میر کا مرقد کیا
دور سے آیا نظر پھولوں کا اک ڈھیر تھا​
 
اس عہد میں‌ الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا

امیدوارِ وعدہء دیدار مرچلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا

اس کے گئے پر ایسی گئی دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا

بخشش نے مجھ کو ابرِ کرم کی کیا خجل
اے چشم جوشِ اشک ندامت کو کیا ہوا

جاتا ہے یار تیغ بہ کف غیر کی طرف
اے کشتہء ستم تری غیرت کو کیا ہوا

تھی صَعت عاشقی کی ہدایت ہی میر پر
کیا جانیے کہ حالِ نہایت کو کیا ہوا
 
شبِ‌ ہجر میں کم تظلم کیا
کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات!
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

زمانے نے مجھ جُرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشتِ سرِ‌ خم کیا

جگر ہی میں یک قطرہء خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا

کسو وقت پاتے نہیں گھر اُسے
بہت میر نے آپ کو گم کیا​
 
7

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا

حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی، خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختیاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے، ٹیڑھے، ترچھے، تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

کس کا کعبہ، کیسا قبلہ، کون حرم ، ہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں
جُبہ ، خرقہ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا

یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا دن کو جوں جوں شام کیا

ساعدِ سمیں دونوں اس کے، ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
بُھولے اُس کے قول و قسم پر، ہائے خیالِ خام کیا

کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
استغنا کی چوگنی اُن نے، جُوں جُوں میں ابرام کیا

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا​
 
8

چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا

فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
بہ رنگِ سبزہء نورستہ پائمال کیا

رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اُس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا

بہارِ رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمنِ قدم نے ترے نہال کیا

جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف
کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا

لگا نہ دل کو کہیں، کیا سنا نہیں‌ تو نے
جو کچھ کہ میر کا اس عاشقی نے حال کیا​
 
9

دیکھے گا جو تجھ رُو کو، سو حیران رہے گا
وابستہ ترے مُو کا، پریشان رہے گا

منعم نے بِنا ظلم کی رکھ، گھر تو بنایا
پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا

چھوٹوں کہیں‌ ایذا سے ، لگا ایک ہی جلاد
تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا

چمٹے رہیں گے دشتِ محبت میں سرو تیغ
محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا

دل دینے کی ایسی حرکت اُن نے نہیں کی
جب تک جیے گا میر پشیمان رہے گا

 
10

تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا

بے ہوش مئے عشق ہوں، کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں‌شام نہ آیا

کس دل سے ترا تیرِ نگہ پار نہ گزرا
کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا

دیکھا نہ اُسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشکِ‌ مہ عید لبِ بام نہ آیا

سو بار بیاباں میں‌گیا محملِ لیلیٰ
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا

اب کے جو ترے کوچے سے جاوں گا توسنیو!
پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا

نَے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ
اپنا تو یہ دل میر کِسو کام نہ آیا​
 
11

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں‌ ہر سفری کا

زنداں میں‌ بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تیری بیداد گری کا

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

صد موسمِ‌گل ہم کو تہِ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا

اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے مرا اشک عقیقِ جگری کا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

ٹک میرِ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا
 
12

وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہوگیا
سنبل چمن کا مفت میں پامال ہوگیا

کیا امتدادِ مدتِ ہجراں بیاں کروں
ساعت ہوئی قیامت و مہ سال ہوگیا

دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہوگیا

قامت خمیدہ، رنگ شکستہ، بدن نزار
تیرا تو میر غم میں عجب حال ہوگیا​
 
13

بے تاب جی کو دیکھا، دل کو کباب دیکھا
جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا

پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا
اپنے کیے کا اُن نے ثمرہ شتاب دیکھا

دل کا نہیں ٹھکانا بابت جگر کی گم ہے
تیرے بلاکشوں کا ہم نے حساب دیکھا

آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
اُس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا

لیتے ہی نام اُس کا سوتے سے چونک اُٹھے ہو
ہے خیر میر صاحب! کچھ تم نے خواب دیکھا!​
 
14

دل بہم پہنچا بدن میں، تب سے سارا تن جلا
آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا

سرکشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ
ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگِ گردن جلا

بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ
ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہِ نو دامن جلا

کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا

سوکھتے ہی آنسووں کے، نور آنکھوں سے گیا
بجھ ہی جاتے ہیں دیے جس وقت سب روغن جلا

آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میر
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا​
 
15

حالِ دل میر کا رو رو کے سب اے ماہ، سنا
شب کو القصہ عجب قصہء جاں کاہ سنا

کوئی ان طوروں سے گزرے ہے ترے غم میں مری
گاہ تُو نے نہ سنا حال مرا، گاہ نہ سنا

خوابِ غفلت میں ہیں یاں سب تُو عبث جاگا میر
بے خبر دیکھا اُنھیں میں جنھیں آگاہ سنا​
 
16

جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
اپنی زنجیر پا ہی کا غُل تھا

بسترا تھا چمن میں جوں‌ بلبل
نالہ سرمایہء توکل تھا

یک نِگہ کو وفا نہ کی گویا
موسمِ گل صفیرِ بلبل تھا

اُن نے پہچان کر ہمیں مارا
مُنھ نہ کرنا اِدھر تجاہل تھا

اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار
یادِ ایام جب تحمل تھا

جا پھنسا دامِ زلف میں‌ آخر
دل نہایت ہی بے تاءمل تھا

یوں‌گئ قد کے خم ہوئے جیسے
عمر اک روہر سرِ پل تھا

خوب دریافت جو کیا ہم نے
وقتِ خوش میر نکہتِ گل تھا
 
17

آگے جمالِ یار کے معذور ہوگیا
گُل اک چمن میں دیدہء بے نور ہوگیا

اک چشمِ منتطر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ
جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہوگیا

پہنچا قریبِ مرگ کے وہ صیدِ ناقبول
جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہوگیا

اُس ماہِ‌ چاردہ کا چھپے عشق کیوں کہ آہ
اب تو تمام شہر میں‌ مشہور ہوگیا

شاید کسو کے دل کو لگی اُس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشہء دل چور ہوگیا

دیکھا جو میں نے یار کو وہ میر ہی نہیں
تیرے غمِ فراق میں‌ رنجور ہوگیا
 
18

فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا
پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا

بگڑا اگر وہ شوخ تو سنیو کہ رہ گیا
خورشید اپنی تیغ و سپر ہی سنبھالتا

یہ سر تبھی سے گوے ہے میدان عشق کا
پھرتا تھا جن دنوں میں تو گیندیں اچھالتا

بِن سر کے پھوڑے بنتی نہ تھی کوہ کن کے تئیں
خسرو سے سنگِ سینہ کو کس طور ٹالتا

چھاتی سے ایک بار لگاتا جو وہ تو میر
برسوں یہ زخم سینے کا ہم کو نہ سالتا​
 
19

گل شرم سے بہ جائےگا گلشن میں ہو کر آب سا
برقعے سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا

گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے
دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹھ لعلِ ناب سا

وہ مایہء جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا
میں شوق کی افراط سے بے تاب ہوں سیماب سا

دل تاب ہی لایا نہ ٹک، تا یاد رہتا ہم نشیں
اب عیش روزِ وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا

سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس ودم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا، آیا تھا اک سیلاب سا

ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے
اب سجدے ہی میں گزرے ہے قد جو ہوا محراب سا

تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھتی کبھو
اب دیدہء تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا

رکھ ہاتھ دل پر میر کے دریافت کرکیا حال ہے!
رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دِنوں بے تاب سا

 
Top