انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

39

یوں نکلے ہے فلک ایدھر سے نازکناں جو جانے تو
خاک سے سبزہ میری اُگا کر اُن نے مجھ کو نہال کیا

حال نہیں ہے عشق سے مجھ میں کس سے میر اب حال کہوں
آپ ہی چاہ کر اُس ظالم کو یہ اپنا میں حال کیا​
 
40

گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
خانہ خراب ہوجیو اس دل کی چاہ کا

آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں
مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا

اک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑا
قصہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا

تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولے
جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا

ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اُٹھا کے چل
ہوگا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا

اے تاجِ شہ نہ سر کو فرو لاوں تیرے پاس
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا

بیمار تو نہ ہووے جیے جب تلک کہ میر
سونے نہ دے گا شور تری آہ آہ کا​
 
41

دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا

ہر قدم پرتھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا

سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
لیکن اے داغ، دل سے تو نہ گیا

دل میں کتنے مسودے تھے ولے
ایک پیش اُس کے روبرو نہ گیا

سبحہ گردن ہی میر ہم تو رہے
دستِ کوتاہ تاسبُو نہ گیا​
 
42

گل و بلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا

جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں
یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا

آبلے کا بھی ہونا دامن گیر
تیرے کوچے کے خار میں دیکھا

جن بلاوں کو میر سنتے تھے
اُن کو اس روزگار میں دیکھا
 
43


کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دلِ زار تھا
کبھو درد تھا، کبھو داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو وار تھا

دمِ صبح بزمِ خوشِ جہاں، شب غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دُود تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا

دلِ خستہ جو لہو ہوگیا، تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھوسوز سینہ سے داغ تھا ، کبھو درد و غم سے فگار تھا

دل مضطرب سے گزرگئی، شبِ وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا، نہ فراغ تھا، نہ شکیب تھا، نہ قرار تھا

جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہیں وہ ناوکِ بے خطا، کسو کے کلیجے کے پار تھا

یہ تمہاری ان دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خونچکاں
وہی آفتِ دلِ عاشقاں، کسو وقت ہم سے بھی یار تھا

نہیں تازہ دل کی شکستگی، یہی درد تھا، یہی خستگی
اُسے جب سے ذوقِ شکار تھا، اِسے زخم سے سروکار تھا

کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میر شکستہ پا، ترے باغِ تازہ میں خار تھا​
 
44

مہر کی تجھ سے توقع تھی، ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا

جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جاکے سو مر کر نکلا

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

اشکِ تر، قطرہء خوں، لختِ جگر، پارہء دل
ایک سے ایک عدو آنکھ سے بہتر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میر
پر ترا نام تو اِک شوق کا دفتر نکلا​
 
45

رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا

نہیں ستارے، یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا

گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا
لباسِ فقر ہے واں، فخر بادشاہوں کا

تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی
تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا

کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال
کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا

حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا

تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی اُدھر
فریب خوردہ ہے تُو میر کن نگاہوں کا​
 
46

اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

ہم راہروانِ راہِ فنا ہیں بہ رنگِ عمر
جاویں گے ایسے، کھوج بھی پایا نہ جائے گا

پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا

اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اُٹھا، کہ پھر
دیوانِ حشر میں اُسے لایا نہ جائے گا

اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

ہم بے خودانِ محفلِ تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا

گو بیستُوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن
سنگِ گرانِ عشق اُٹھایا نہ جائے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر، باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا​
 
47

ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
ہر گام پہ جس میں سر نہ ہوگا

کیا اُن نے نشے میں مجھ کومارا
اتنا بھی تو بے خبر نہ ہوگا

دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم
ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہوگا

اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا
محنت زدوں کے جگر نہ ہوگا

(ق)

دنیا کی نہ کر تو خواست گاری
اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہوگا

آ خانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہوگا

پھر نوحہ گری کہاں‌ جہاں میں
ماتم ذدہ میر اگر نہ ہوگا
 
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
یا روز اُٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا

اُن نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار
میں نے اُسے ہزار جتایا تو کیا ہوا

مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

میں صیدِ ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد
ظالم اک اور تیر لگایا تو کیا ہوا

کیا کیا دعائیں مانگی ہیں‌ خلوت میں شیخ یوں
ظاہر جہاں سے ہاتھ اُٹھایا تو کیا ہوا

وہ فکر کر کہ چاکِ جگر پاوے التیام
ناصح جو تُو نے جامہ سلایا تو کیا ہوا

جیتے تو میر ان نے مجھ داغ ہی رکھا
پھر گور پر چراغ جلایا تو کیا ہوا
 
یادِ ایام کہ یاں ترکِ شکیبائی تھا
ہرگلی شہر کی یاں کوچہء رسوائی تھا

اتنی گزری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب
صبرِ مرحوم عجب مونسِ تنہائی تھا

تیرے جلوے کا مگر کا مگر رُو تھا سحر گلشن میں
نرگس اک دیدہء حیران تماشائی تھا

یہی زلفوں کی تری بات تھی یا کاکل کی
میر کو خوب کیا سیر تو سودائی تھا​
 
51

اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہوگا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہوگا

ٹک گورِ غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہوگا

ہے قاعدہء کلی یہ کُوئے محبت میں
دل گم جو ہوا ہوگا پیدا نہ ہوا ہوگا

اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم
اک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہوگا

آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہوگا

جز مرتبہء کُل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہوگا

صد نشترِ مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میر ایسا سودا نہ نہ ہوا ہوگا
 
عالم میں کوئی دل کا خریدار نہ پایا
اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا

حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ
عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا

تصویر کے مانند لگے در ہی سے گزری
مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا

مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل
اس باغ میں ہم نے گلِ بے خار نہ پایا

آئینہ بھی حیرت سے محبت کی ہوئے ہم
پر سیر ہو اُس شخص کا دیدار نہ پایا

وہ کھینچ کے شمشیر ستم رہ گیا جو میر
خوں ریزی کا یاں کوئی سزاوار نہ پایا​
 
کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا
کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گُھور گیا

لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے
آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا

چشمِ خوں‌بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

نالہء میر نہیں رات سے سنتے ہم لوگ
کیا ترے کوچے سے اے شوخ و رنجور گیا!​
 
54

خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل کیا

اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم
گو چمن میں غنچہ پژمردہ تجھ سے کِھل گیا

دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو
کش مکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چِھل گیا

رشک کی جاگہ ہے مرگ اس کشتہء حسرت کی میر
نعش کے ہمراہ جس کی گور تک قاتل گیا
 
55

تابہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا

دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفاکار تجھ سا یار کیا

یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

صد رگِ جاں کو تاب دے باہم
تیری زلفوں کا ایک تار کیا

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
 
56

شب کو اس کا خیال تھا دل میں
گھر میں مہماں عزیز کوئی تھا

اب تو اُس کی گلی میں خوار ہے لیک
میر بے جاں عزیز کوئی تھا​
 
57

پھوٹا کیے پیالے، لنڈھتا پھرا قرابا
مستی میں میری تھی یاں، اک شور اور شرابا

وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں
سوکھا پڑا ہے اب تومدت سے یہ دوآبا

ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نےَ عشق کو ہے صرفہ، نےَ حسن کومحابا

ہر چند ناتواں ہیں پر آگیا جو جی میں
دیں گے ملا زمیں سے تیرا فلک قلابا

اب شہر ہرطرف سے میدان ہوگیا ہے
پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا

دل تفتگی کی اپنی ہجراں میں شرح کیا دوں
چھاتی تو میر میری جل کر ہوئی ہے تابا
 
58

دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں‌جاتا
پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا

ہوئی ہے اتنی ترے عکسِ زلف کی حیراں
کہ موجِ بحر سے مطلق بہا نہیں جاتا

ستم کچھ آج گلی میں تری نہیں مجھ پر
کب آگے خون میں مَیں یاں‌ نہا نہیں جاتا

خراب مجھ کو کیا اضطرابِ دل نے میر
کہ ٹک بھی اس کنے اُس بن رہا نہیں جاتا

 
Top