انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا
کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا

رہِ طلب میں گرے ہوتے سر کے بھل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو اُن نے
گلے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا

بتاں کی میر ستم وہ نگاہ ہے جس نے
خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا​
 
80

نقاش دیکھ تو میں کیا نقشِ یار کھینچا
اُس شوخِ کم نما کا نت انتظار کھینچا

رسمِ قلم روِ عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی، ایکوں کو دار کھینچا

تھا بد شراب ساقی کتنا کہ رات مے سے
میں نے جو ہاتھ کھینچا، اُن نے کٹار کھیچنا

پھرتا ہے میر تو جو پھاڑے ہوئے گریباں
کس کس ستم زدے نے دامانِ یار کھینچا​
 
81

یہ حسرت ہے مروں اُس میں لیے لبریز پیمانہ
مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے مے خانا

نہ وے زنجیر کے غل ہیں، نہ دے جرگے غزالوں کے
مرے دیوانے پن تک ہی رہا معمور ویرانا

مرا سر نزع میں زانو پہ رکھ کر یوں لگا کہنے
کہ اے بیمار میرے، تجھ پہ جلد آساں ہو مرجانا

نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش وکیفیت و معنی
گیا ہو میر دیوانہ، رہا سودا سو مستانا​
 
82

بارہا گور دل جھکا لایا
اب کے شرطِ وفا بجا لایا

قدررکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

دل کہ اک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بَلا لایا

سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ابتدا ہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا​
 
83

کیا عجب، پل میں‌اگر ترک ہو اُس سے جاں کا
ہو جو زخمی کسو برہم زدنِ مژگاں کا

اُٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو
ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا

جلوہء ماہ تہِ ابرِ تنک بھول گیا
اُن نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا

لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدہء اشک افشاں کا

اُٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آ بیٹھے ہے
قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاں‌کا

چارہء عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میر
اس مرض میں‌ ہے عبث فکر تمہیں درماں کا​
 
84

سبزانِ تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا

جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہوگیا
مذکور کیا ہے اب جگرِ لخت لخت کا

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں‌انھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا

خاکِ سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میر
سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا
 
85

ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا

برقع اُٹھے پہ اُس کے ہوگا جہان روشن
خورشید کا نکلنا کیوں کر چھپا رہے گا

اک وہم سی رہی ہے اپنی نمود تن میں
آتے ہو اب تو آو، پھر ہم میں کیا رہے گا

مذکور یار ہم سے مت ہم نشیں کیا کر
دل جو بجا نہیں ہے پھراُس میں جا رہے گا

دانستہ ہے تغافل، غم کہنا اس سے حاصل
تم درد دل کہوگے، وہ سرجھکا رہے گا

 
بھلا ہوگا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہوگا
ماآل اپنا ترے غم میں‌ خدا جانے کہ کیا ہوگا

تفحض فائدہ ناصح، تدارک تجھ سے کیا ہوگا
وہی پاوے گا میرا درد، دل جس کا لگا ہوگا

کسو کو شوق یارب بیش اس سے اور کیا ہوگا
قلم ہاتھ آگئی ہوگی تو سو سو خط لکھا ہوگا

معیشت ہم فقیروں کی سی اخوانِ زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہوگا

خیال اُس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سا آشنا ہوگا

قیامت کرکے اب تعبیر جس کوکرتی ہے خلقت
وہ اُس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہوگا

نہ ہو کیوں غیرتِ گلزار وہ کوچہ، خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہوگا

بہت ہم سائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی مرا شور نالوں کا سنا ہوگا

نہیں جُز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اُس کے
قفس سے تن کے مرغِ روح میرا جب رہا ہوگا

کہیں ہیں میر کو مارا گیا شب اُس کے کُوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اُٹھ گیا ہوگا​
 
87

یاں نام یار کس کا دردِ زباں نہ پایا
پر مطلقاً کہیں ہم اُس کا نشان پایا

پایا نہ یوں کہ کریے اُس کی طرف اشارت
یوں تو جہاں میں ہم نے اُس کو کہاں نہ پایا

یہ دل کہ خون ہووے بر جا نہ تھا وگرنہ
وہ کون سی جگہ تھی، اُس کو جہاں نہ پایا

محرومِ سجدہ آخر جانا پڑا جہاں سے
جوشِ جباہ سے ہم وہ آستاں نہ پایا

ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا​
 
88

پھر شب نہ لطف تھا، نہ وہ مجلس میں نور تھا
اُس روئے دل فروز ہی کا سب ظہور تھا

کیا کیا عزیز خلعِ بدن، ہائے کر گئے
تشریف تم کو یاں تئیں لانا ضرور تھا​
 
89

ہے حال جائے گریہ جانِ پُر آرزو کا
روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا

جاتی نہیں اُٹھائی اپنے پہ یہ خشونت
اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا

اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کرلوں
تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا

یہ عیش گہ نہیں ہے، یاں رنگ اور کچھ ہے
ہر گُل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا

گلیاں بھری پڑی ہیں اے یار زخمیوں سے
مت کھول پیچ ظالم اس زلفِ مشک بُو کا

وے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں
دینا نہ تھا دل اُس کو، میں میر آہ چُوکا​
 
90

میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا
دل کے سو ٹکڑے مرے پر سبھی نالاں یک جا

پند گووں نے بہت سینے کی تدبیریں کیں
آہ ثابت بھی نہ نکلا یہ گریباں یک جا

تیرا کوچہ ہے ستم گار و کافر جاگہ
کہ جہاں مارے گئے کتنے مسلماں یک جا

تو بھی رونے کو بَلا، دل ہے ہمارا بھی بھرا
ہوجے اے ابر بیاباں میں گریاں یک جا​
 
91

فلک کا منہ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
ستم شریک ترا یار ہے زمانے کا

بسانِ شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے
سراغ کیجو نہ پھر تُو نشان پانے کا

چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے
جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا

سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں، میں تری تیغ کے لگانے کا

شریفِ مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ!
یہ میر اب جو گدا ہے شراب خانے کا​
 
92

کل شبِ ہجراں تھی، لب پر نالہ بیمارانہ تھا
شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا

شہرہء عالم اُسے یمنِ محبت نے کیا
ورنہ مجنوں ایک خاک افتادہء ویرانہ تھا

منزل اس مہ کی رہا جو مدتوں اے ہم نشیں
اب وہ دل گویا کہ اک مدت کا ماتم خانہ تھا

اک نگاہِ آشنا کو بھی وفا کرتا نہیں
وا ہوئیں مژگاں کہ سبزہ سبزہء بیگانہ تھا

روزوشب گزرے ہے پیچ و تاب میں رہتے تجھے
اے دلِ صد چاک کس کی زلف کا تُو شانہ تھا

یاد ایامے کہ اپنے روز و شب کی جائے باش
یا درِ بازِ بیاباں ، یا درِ مے خانہ تھا

بعد خوں ریزی کے مدت بے حنا رنگیں رہا
ہاتھ اس کا جومرے لوہو میں گستاخانہ تھا

غیر کے کہنے سے مارا اُن نے ہم کو بے گناہ
یہ نہ سمجھا وہ کہ واقع میں بھی کچھ تھا یا نہ تھا

صبح ہوتے وہ بنا گوش آج یاد آیا مجھے
جو گرا دامن پہ آنسو گوہرِ یک دانہ تھا

شب فروغِ بزم کا باعث ہوا تھاحسنِ دوست
شمع کا جلوہ غبار دیدہء پروانہ تھا

رات اُس کی چشمِ میگوں خواب میں دیکھتی تھی میں
صبح سوتے سے اُٹھا تو سامنے پیمانہ تھا

رحم کچھ پیدا کیا شاید کہ اس بے رحم نے
گوش اُس کا شب ادھر تا آخرِ افسانہ تھا

میر بھی کیا مستِ طافح تھا شرابِ عشق کا
لب پہ عاشق کے ہمیشہ نعرہء مستانہ تھا

 
93

پیغامِ غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
نالہ مرا چمن کی دیوارتک نہ پہنچا

اس‌ آئنے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اُس کے غم میں‌دیدار تک نہ پہنچا

جوں نقش پا ہے غربت حیرانِ کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا

لبریزِ شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کارِ شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا

بے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقتِ اخیر اس کے بیمار تک نہ پہچنا

یہ بخت سبزہ دیکھو باغِ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا

(ق)

مستوری، خوب روئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کے اظہار تک نہ پہنچا

یوسف سے لے کے تاگُل پھر گُل سے لے کے تاشمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا

افسوس میر وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام اُن کا اُس کی تلوار تک نہ پہنچا​
[
 
94

نَے دل رہا بجا ہے، نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا

منھ کی جھلک دے یار کے بے ہوش ہوگئے
شب ہم کو میر پرتوِ مہتاب لے گیا​
 
95

کب تلک یہ ستم اُٹھایئے گا
ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا

شکلِ تصویر بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل چل، کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پائیے گا

کہیے گا اُس سے قصہء مجنوں
یعنی پردے میں غم سنائیے گا

(ق)

شرکتِ شیخ و برہمن سے میر
کعبہ و دَیر سے بھی جایئے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جُدی مسجد
کسی ویرانے میں بنائیے گا​
 
96

دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
لے یار مرے سلمہ، اللہ تعالا

کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا

معمور شرابوں سے ، کبابوں سے ہے سب دَیر
مسجد میں ہے کیا شیخ، پیالا نہ نوالا

گزرے ہے لہو واں سرِ ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاوں کا چھالا

جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش
واں چادرِ مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا

دیکھے ہے مجھے دیدہء پُر چشم سے وہ میر
میرے ہی نصیبوں میں‌ تھا یہ زہر کا پیالا​
 
دیر و حرم سے گزرے، اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر ، سیر و سفر ہمارا

پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی
ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا

دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کیسے
کیا جانیے کہ اُس بِن دل ہے کدھر ہمارا

ہیں تیرے آئنے کی تمثال ہم ، نہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا

جوں صبح اب کہاں ہے طولِ سخن کی فرصت
قصہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا

کوچے میں اُس کے جا کر بنتا نہیں پھر آنا
خون ایک دن کرے گا اس خاک پرہمارا

نشوونما ہے اپنی جوں گردباد انوکھی
بالیدہ خاکِ رہ سے ہے یہ شجر ہمارا

اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا​
 
98

غم رہا، جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا

حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا

دل نہ پہنچا گوشہء داماں تلک
قطرہء خوں تھا، مژہ پر جم رہا

سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا

جامہء احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں، لیک نامحرم رہا

زلفیں کھولیں تو تُو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کامِ دل برہم رہا

اُس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آبِ حیواں سم رہا

میرے رونے کی حقیقت جس میں‌تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

صبحِ پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ جیتا یاں بہت دن کم رہا

 
Top