انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

99

چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا

دہر میں مَیں خاک بسر ہی رہا
عمر کو اس طور بسر کرگیا

دل نہیں منزلِ سینہ میں اب
یاں سے وہ بے چارہ سفر کرگیا

کس کو میرے حال سے تھی آگہی
نالہء شب سب کو خبر کرگیا

مجلسِ آفاق میں پروانہ ساں
میر بھی شام اپنی سحر کرگیا​
 
100

آیا جو واقعے میں درپیش عالمِ مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا

دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روئے خنداں چشمِ پُر آب نکلا

کچھ دیر ہی لگی نا دل کو تو تیر لگتے
اک صیدِ ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا

ہر حرفِ غم نے میرے مجلس کے تئیں رلایا
گویا غبارِ دل کا پڑھتا کتاب نکلا

کس کی نگہ کی گردش تھی میر رُو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا​
 
101

دامانِ کوہ میں جو میں دھاڑ مار رویا
اک ابرواں سے اُٹھ کر بے اختیار رویا

پڑتا نہ تھا بھروسا عہد وفائے گل پر
مرغِ چمن نہ سمجھا، میں تو ہزار رویا

ہرگل زمیں یہاں کی رونے ہی کی جگہ تھی
مانندِ‌ ابر ہر جا میں زار زار رویا

تھی مصلحت کہ رک کر ہجراں میں جان دیجے
دل کھول کر نہ غم میں مَیں ایک بار رویا

اک عجزِ عشق اس کا اسبابِ صد الم تھا
کل میر سے بہت میں ہو کر دوچاررویا​
 
102

وہ آئنہ رخسار دمِ باز پس آیا
جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا

کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر
سوبار نکالا اسے اوراس کو چھپایا

میں صیدِ رمیدہ ہوں بیابانِ جنوں کا
رہتا ہے مرا موجبِ وحشت، مرا سایا

یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ
یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا

ایسے بُتِ بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھی
دل میر کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا
 
103

دل جو زیرِ غبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں کا مکدر تھا

اُس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا

سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا

بعد اک عمر جو ہوا معلوم
دل اُس آئینہ رُو کا پتھر تھا

بارے سجدہ ادا کیا تہِ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا

اب خرابا ہوا جہاں آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا

(ق)

بےزری کا نہ کر گلہ غافل!
رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا

اتنے منعم جہان میں گزرے
وقت رحلت کےکس کنے زر تھا

صاحبِ جاہ وشوکت و اقبال
اک اذاں جملہ اب سکندر تھا

تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

لعل و یاقوت ، ہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر، میسر تھا

آخر کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی، کفن سے باہر تھا

عیب ِ طولِ کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا

خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا


 
104

تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے، ایماں ہے ہمارا

گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں
دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا

ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرِ خوباں
اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا

مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا
یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا

ہم وے ہیں سن رکھ تم مرجائیں رک کے یک جا
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا

کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد
دیوانِ حشر گویا دیوان ہے ہمارا

ماہیتِ دو عالم کھاتی پھرے ہے غوطے
یک قطرہ خون یہ دل، طوفان ہے ہمارا

کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس
روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا

کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے
گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا​
 
کب مصیبت ذدہ دل، مائلِ آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا

آدمِ خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا

دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایہء دیوار نہ تھا

صد گلستاں تہِ یک بال تھے اُس کے جب تک
طائرِ جاں قفسِ تن کا گرفتار نہ تھا

حیف سمجھا ہی نہ وہ قاتلِ ناداں ورنہ
بے گنہ مارنے قابل یہ گنہ گار نہ تھا

عشق کا جذب ہوا باعثِ سودا ورنہ
یوسفِ‌مصر ، زلیخا کا خریدار نہ تھا

نرم تر موم سے بھی ہم کو کوئی دیتی قضا
سنگ چھاتی کا تو یہ دل ہمیں درکار نہ تھا

رات حیران ہوں کچھ چپ ہی مجھے لگ گئی میر
درد پنہاں تھے بہت، پر لبِ اظہار نہ تھا​
 
106

جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو، دیا
آخر کو جستجو نے تری مجھ کو کھو دیا

پوچھا جو میں نے دردِ محبت سے میر کو
رکھ ہاتھ اُن نے دل پہ ٹک اک اپنے، رو دیا​
 
107

سارے رئیس اعضاء ہیں معرضِ تلف میں
یہ عشقِ بے محابا کس کو امان دے گا

پائے پُر آبلہ سے مَیں گم شدہ گیا ہوں
ہرخار بادیے کا میرا نشان دے گا

نالہ ہمارا ہر شب گزرے ہے آسماں سے
فریاد پر ہماری کس دن تُو کان دے گا​
 
108

ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا

ہر چند شورِ محشر اب بھی ہے در پہ لیکن
نکلے گا یار گھر سے، ہووے گا جب تماشا

طالع جو میر خواری محبوب کو خوش آئی
پر غم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا​
 
109

کل چمن میں گُل و سمن دیکھا
آج دیکھا تو باغ بَن دیکھا

کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں
عاشقوں کا جلا وطن دیکھا

ذوقِ پیکانِ تیر میں تیرے
مدتوں تک جگر نے چَھن دیکھا

ایک چشمک دو صد سنانِ مژہ
اُس نکیلے کا بانکپن دیکھا

حسرت اُس کی جگہ تھی خوابیدہ
میر کا کھول کر کفن دیکھا​
 
110

جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا
تپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا

جہاں کو فتنے سے خالی کبھی نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا

خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید
سرشکِ یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا

ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے
ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا

کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اُس کی میر
سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا
 
111

کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا
رُو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا

قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا
بے چارہ گریہ ناک، گریباں دریدہ تھا

اک وقت ہم کو تھا سرِ گریہ کہ دشت میں
جو خارِ خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا

جس صید گاہِ عشق میں یاروں کا جی گیا
مرگ اس شکار گہ کا شکارِ رمیدہ تھا

مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی
ہر نالہ میری جان کو تیغ ِ کشیدہ تھا

حاصل نہ پوچھ گلشنِ مشہد کا بوالہوس
یاں پھل ہر اک درخت کا خلقِ بریدہ تھا

دل بے قرار گریہء خونیں تھا رات میر
آیا تھا تو بسملِ درخوں تپیدہ تھا​
 
112

کثرتِ داغ سے دل رشکِ گلستاں نہ ہوا
میرا دل خواہ جو کچھ تھا، وہ کبھو یاں نہ ہوا

جی تو ایسے کئی صدقے کیے تجھ پر لیکن
حیف یہ ہے کہ تنک تو بھی پشیماں نہ ہوا

آہ مَیں کب کی کہ سرمایہء دوزخ نہ ہوئی
کون سا اشک مرا منبعِ طوفاں نہ ہوا

(ق)

گو توجہ سے زمانے کی جہاں میں مجھ کو
جاہ و ثروت کا میسر سروساماں نہ ہوا

شکر صد شکر کہ میں ذلت و خواری کے سبب
کسی عنوان میں ہم چشمِ عزیزاں نہ ہوا

برق مت خوشے کی اور اپنی بیاں کر صحبت
شکر کر یہ کہ مِرا واں دلِ سوزاں نہ ہوا

دلِ بے رحم گیا شیخ لیے زیرِ زمیں
مرگیا پریہ کہن گیر مسلماں نہ ہوا

کون سی رات زمانے میں گئی جس میں میر
سینہء چاک سے میں دست و گریباں نہ ہوا​
 
113

سنگ مجھ بہ جاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب، دل نہ ہوا ستم ہوا

کس کی ہوا کہاں کا گُل، ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا

کن نے بدی سے اتنی دیر موسمِ گُل میں ساقیا
دے بھی مئے دو آتشہ، زور ہی سرد ہے ہوا

فصلِ خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہوگیا موسمِ گل میں کیا بلا

بُوئے کبابِ سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم! رات کسی کا دل جلا​
 
114

برگشتہ بخت دیکھ کہ قاصد سفر سے مَیں
بھیجا تھا اس کے پاس، سو میرے وطن گیا

آئی اگر بہار تو اب ہم کو کیا صبا!
ہم سے تو آشیاں بھی گیا اور چمن گیا

سرسبز ملکِ ہند میں ایسا ہوا کہ میر
یہ ریختہ لکھا ہوا تیرا دکن گیا​
 
115


سرِ دورِ فلک بھی دیکھوں اپنے روبرو ٹوٹا
کہ سنگِ محتسب سے پائے خم دستِ سبو ٹوٹا

کہاں آتے میسر تجھ سے مجھ کو خود نما اتنے
ہوا یوں اتفاق آئینہ میرے روبرو ٹوٹا

وہ بے کس کیا کرے کہہ تو رہی دل ہی کی دل ہی میں
نپٹ بے جا ترا دل میر سے ہے آرزو ٹوٹا​
 
116


آنکھوں میں جی مرا ہے اِدھر پار دیکھنا
عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا

کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاکِ قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا

آنکھیں چرائیو نہ ٹک ابرِ بہار سے
میری طرف بھی دیدہء خونبار دیکھنا

ہونا نہ چار چشم دل اُس ظلم پیشہ سے
ہشیار، زینہار، خبردار، دیکھنا!

صیادِ دل ہے داغِ جدائی سے رشکِ باغ
تجھ کوبھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا

گرزمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر
اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا

اُس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میر
جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا​
 
117

غلط ہے عشق میں اے ابوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

زمیں اک صفحہء تصویرِ بے ہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے، اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا

جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول، پھر تماشا دیکھ قدرت کا

ہنوز آوارہ لیلیٰ ہے جانِ رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا

حریفِ بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرات کا

نگاہِ یاس بھی اس صیدِ افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا

خرابی دل کی اس حد ہے کہ ، یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا

نگاہِ مست نے اُس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زُہد و طاعت کا

قدم ٹک دیکھ کر رکھ میر سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحرائے محبت کا​
 
118

جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں
جسے ابر ہر سال روتا رہے گا

مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تُو کب تک میرے منھ کو دھوتا رہے گا

بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں!
کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا

مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے
جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا

بس اے میر مژگاں سے پونجھ آنسوؤں کو
تُو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا​
 
Top