انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

119

نئی طرزوں سے مے خانے میں رنگِ مے جھلکتا تھا
گلابی روتی تھی واں، جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا

گئی تسبیح اس کی نزع میں کب میر کے دل سے
اُسی کے نام کی سمرن تھی، جب منکا ڈھلکتا تھا​
 
120

تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا
کیا گلہ کیجے، غرض اب وہ زمانہ ہی گیا

ہم اسیروں کو بھلا کیا جو بہار آئی نسیم!
عمر گزری کہ وہ گلزار کا جانا ہی گیا

جی گیا میر کا اس لیت و لعل میں لیکن
نہ گیا ظلم ہی تیرا، نہ بہانا ہی گیا​
 
121

دل عشق کا ہمیشہ حریفِ نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا

اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ
کس کا غبار تھا کہ یہ دنبالہ گرد تھا

دل کی شکستگی نے ڈرائے رکھا ہمیں
واں چیں جبیں پر آئی کہ یاں رنگ زرد تھا

مانندِ حرف، صفحہء ہستی سے اُٹھ گیا
دل بھی مرا جریدہء عالم میں فرد تھا

گزری مدام اس کی جوانانِ مست میں
پیرِ مغاں بھی طرفہ کوئی پیر مرد تھا

عاشق ہیں ہم تو میر کے بھی ضبط عشق کے
دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا​
 
122

(ق)

یاں بلبل اور گُل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا

گُل یادگارِ چہرہء خوباں ہے، بے خبر
مرغِ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا

تو برسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میر سے
یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا​
 
123

مغاں مجھ مست بن پھر خندہء ساغر نہ ہووے گا
مئے گل گوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے رودے گا

کیا ہے خوں مرا پامال یہ سرخی نہ چھُوٹے گی
اگرقاتل تُو اپنے پاؤں سو پانی سے دھووے گا

کوئی رہتا ہے جیتے جی ترے کُوچے کے آنے سے
تبھی آسودہ ہوگا میر سا جب جی کو کھودے گا​
 
124

مجھے زنہار خوش آتا نہیں کعبے کا ہمسایا
صنم خانہ ہی یاں اے شیخ تُو نے کیوں نہ بنوایا

زہے اے عشق کی نیرنگ سازی غیر کو اُن نے
جلایا بات کہتے واں ، ہمیں، مرنے کو فرمایا​
 
125

شیخ کیا صورتیں رہتی تھیں بھلا جب تھا دیر
رُو بہ ویرانی ہو اس کعبے کی آبادی کا

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا​
 
کام پل میں مرا تمام کیا
غرض اُس شوخ نے بھی کام کیا

(ق)

سعیِ طوفِ حرم نہ کی ہرگز
آستاں پر ترے مقام کیا

تیرے کُوچے کے رہنے والوں نے
یہیں سے کعبے کو سلام کیا

کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتلِ عام کیا

عشقِ خوباں کو میر میں اپنا
قبلہ و کعبہ و امام کیا​
 
127

آیا تھا خانقہ میں وہ نور دیدگاں کا
تہ کر گیا مصلی عزلت گزید گاں کا

آخر کو خاک ہونا درپش ہے سبھوں کو
ٹک دیکھ منھ کدھر ہے قامت خمیدگاں کا

جو خار دشت میں ہے سو چشم آبلہ سے
دیکھا ہوا ہے تیرے محنت کشید گاں کا

تیرِ بَلا کا ہر دم اب میر ہے نشانہ
پتھر جگر ہے اُس کے آفت رسیدگاں کا​
 
128

ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تُو نے کی نگاہ
اک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا

دیر و حرم میں کیوں کے قدم رکھ سکے گا میر
ایدھر تو اُس سے بُت پھرے، اُودھر خدا پھرا​
 
129

صحرا میں سیلِ اشک مرا جا بہ جا پھرا
مجنوں بھی اُس کی موج میں مدت بہا پھرا

طالع جو خوب تھے نہ ہوا جاہ کچھ نصیب
سر پر مرے کروڑ برس تک ہما پھرا

آنکھیں بہ رنگِ نقشِ قدم ہوگئیں سفید
نامے کے انتظار میں قاصد بھلا پھرا​
 
130

کس شام سے اُٹھا تھا مرے دل میں درد سا
سو ہوچلا ہوں پیش تر از صبح سرد سا

بیٹھا ہوں جوں غبار صعیف اب وگرنہ میں
پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا

قصدِ طریقِ عشق کیا سب نے بعد قیس
لیکن ہوا نہ ایک بھی اُس رہ نورد سا

کیا میر ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا
نم ناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا​
 
131

ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
پر اتنا بھی ظالم نہ رُسوا ہوا تھا

خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہواتھا

کہاں تھا تُو اس طور آنے سے میرے
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا

زہے طالع اے میر اُن نے یہ پوچھا
کہاں تھا تو اب تک ، تجھے کیا ہوا تھا​
 
132

آہ کے تئیں دلِ حیران و خفا کو سونپا
میں نے یہ غنچہء تصویر صبا کو سونپا

تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی
تھا وہ بے درد مجھے جن نے وفا کو سونپا

اب تو جاتا ہی ہے کعبے کو تُو بُت خانے سے
جلد پھر پہنچیو اے میر! خدا کو سونپا​
 
133

گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
جگر پر زخم ہے اُس کی زباں درازی کا

خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا

چلو ہو راہِ موافق کہے مخالف کے
طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا

کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ
دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا

بسانِ خاک ہو پامال راہِ خلق اے میر
رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا
 
134

کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سُلا رکھا

جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے
گل پھول کو ہے اُن نے پردہ سا بنا رکھا

جوں برگِ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو
گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا

کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو
دل جس کسو کا پایا چٹ اُن نے اُڑا رکھا

تھی مسلکِ الفت کی مشہور خطرناکی
میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا

خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی
رخساروں کو گو تُو نے برقعے میں چھپا رکھا

لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے
سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزا رکھا

قطعی ہے دلیل اے میر اس تیغ کی بے آبی
رحم اُن نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا​
 
135

کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا
جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہو جائے گا

خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے
قتل کرتے کرتے تیرے تئیں جنوں ہو جائے گا

بزمِ عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حبابِ بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
 
136

سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا
دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا

سب گئے ہوش و صبر و تاب تواں
دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا

ظلم و جور و جفا، ستم، بیداد
عشق میں تیرے ہم پہ کیا نہ ہوا

ہم تو ناکام ہی جہاں میں رہے
یاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا

میر افسوس وہ کہ جو کوئی
اس کے دروازے کا گدا نہ ہوا​
 
137

یار عجب طرح نگہ کر گیا
دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا

تنگ قبائی کا سماں یار کی
پیرہنِ غنچہ کو تہ کر گیا

جانا ہے اِس بزم سے آیا تو کیا
کوئی گھڑی گو کہ تُو رہ کر گیا

وصفِ خط و خال میں خوباں کے میر
نامہء اعمال سیہ کر گیا​
 
138

آہ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

سمجھی نہ بادِ صبح کہ آکر اُٹھا دیا
اُس فتنہء زمانہ کو ناحق جگا دیا

پوشیدہ رازِ عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اُٹھا دیا

اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نہ آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا

تھی لاگ اُس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا

سب شورِ ماہ من کے لیے سر میں مرگئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا

آوارگانِ عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشتِ غبار لے کے صبا نے اُڑا دیا

گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا

ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا، سر جدا دیا

بوئے کبابِ سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتشِ غم نے جلا دیا

تکلیف دردِ دل کی عبث ہم نشیں نے لی
دردِ سخن نے میرے سبھوں کو رُلا دیا

اُن نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا​
 
Top