انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

59

سمجھے تھے میر ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
پھر ان دنوں میں دیدہء خوں بار نم ہوا

آئے بہ رنگِ ابر عرق ناک تم اِدھر
حیراں ہوں کہ آج کدھر کوکرم ہوا

کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
بیت الحرم تھا سو وہ بیت الصنم ہوا

(ق)

آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز
کُوچے پر اُس مزار کے تھا یہ رقم ہوا

کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا ہم نے سر
پایانِ کار مور کی خاکِ قدم ہوا

کیا کیا عزیر و دوست ملے میر خاک میں
ناداں یہاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا​
 
دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
جوکوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا

اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے خاموش
سخن رہے گا سدا میری کم زبانی کا

ہزار جان سے قربان بے پری کے ہیں
خیال بھی کبھو گزرا نہ پرافشانی کا

نمود کرکے وہیں بحرِ غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بھی اِک بلبلا تھا پانی کا​
 
61

موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
اُس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
تمام عمر ہمیں اُس کا انتظار رہا

شرابِ عیش میسر ہوئی جسے یک شب
پھر اُس کو روزِ قیامت تلک خمار رہا

(ق)

بتاں کے عشق نے بے اختیار کرڈالا
وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا

وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا
وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا

تمام عمر گئی اُس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں
وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا

ستم میں غم میں سرانجام اس کا کیا کہیے
ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا

بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہ نکلا
رہا جو سینہء سوزاں میں‌ داغ دار رہا

سو اُس کو ہم سے فراموش کار یوں لے گئے
کہ اُس سے قطرہء خوں‌بھی نہ یادگار رہا

گلی میں‌ اُس کی گیا، سو گیا، نہ بولا گیا
میں میر میر کر اُس کو بہت پکار گیا​
 
62

جیتے جی کوچہء دل دار سے جایا نہ گیا
اُس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا

کاو کاو مژہء یار وہ دلِ زار و نزار
گُتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا

وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا

خاک تک کوچہء دل دار کی چھانی ہم نے
جستجو کی، پہ دلِ گم شدہ پایا نہ گیا

زیرِ شمشیرِ ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیمِ محبت میں‌ ہلایا نہ گیا

جی میں‌ آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
دردِ دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا​
 
63

دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا

دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا

کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ
ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا

دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
اُس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا

شہرِدل آہ عجب جائے تھی پر اُس کے گئے
ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا

آج رہتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف
حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا​
 
64

گُل میں اُس کی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا
ہم کو بن دوشِ ہوا باغ سے لایا نہ گیا

سر نشینِ رہِ مے خانہ ہوں میں کیا جانوں
رسمِ مسجد کے تئیں شیخ کہ آیا نہ گیا

حیف وے جن کے وہ اس وقت میں پہنچا جس وقت
اُن کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا

میر مت عذر گریباں کے پھٹے رہنے کا کر
زخمِ دل چاکِ جگر تھا کہ سلایا نہ گیا​
 
65

ادھر آکر شکار افگن ہمارا
مشبک کرگیا ہے تن ہمارا

گریباں‌سے رہا کوتہ تو پھر ہے
ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا

بلا جس چشم کو کہتے ہیں مردم
وہ ہے عینِ بلا مسکن ہمارا

ہُوا رونے سے رازِ دوستی فاش
ہمارا گریہ تھا دشمن ہمارا

بہت چاہا تھا ابرِ تر نے لیکن
نہ منت کش ہوا گلشن ہمارا

چمن میں ہم بھی زنجیری رہے ہیں
سنا ہوگا کبھو شیون ہمارا

نہ بہکے مے کدے میں میر کیوں کر
گرو سو جا ہے پیراہن ہمارا
 
66

گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
افسانہء محبت مشہور ہے ہمارا

مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم
بالفعل اب ارادہ تا گور ہے ہمارا

کیا آرزو تھی جس سے سب چشم ہوگئے ہیں
ہر زخم سو جگہ سے ناسور ہے ہمارا

تیں آہ عشق بازی چوپڑ عجب بچھائی
کچی پڑی ہیں نردیں گھر دُور ہے ہمارا

تاچند پشتِ پا پر شرم و حیا سے آنکھیں
احوال کچھ بھی تم کو منظور ہے ہمارا

بے طاقتی کریں تو تم بھی معاف رکھیو
کیا کیجیے کہ دل بھی مجبور ہے ہمارا

ہیں مشتِ خاک لیکن جو کچھ ہیں میر ہم ہیں
مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا​
 
67

سحَر کہ عید میں دورِ سبو تھا
پراپنے جام میں تجھ بن لہو تھا

غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا

چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
کہ ہر غنچہ دلِ پُر آرزو تھا

گُل و آئینہ کیا، خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تِدھر تیرا ہی رُو تھا

کرو گے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتہء بسیار گو تھا

جہاں پُر ہے فسانے سے ہمارے
دماغِ عشق ہم کو بھی کبھو تھا

مگر دیوانہ تھا گُل بھی کسو کا
کہ پیراہن میں سو جاگہ رفو تھا

نہ دیکھا میر آوارہ کو لیکن
غبار اک ناتواں سا کُو بہ کُو تھا​
 
68

راہِ دور عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے، سوتا ہے کیا

سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں
تخمِ‌ خواہش دل میں‌ تُو بوتا ہے کیا

یہ نشانِ عشق ہیں، جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز
میر اس کو رائگاں‌کھوتا ہے کیا​
 
69

پہلو میں اک گرہ سی تہِ خاک ساتھ ہے
شاید کہ مرگئے پہ بھی خاطر میں‌ کچھ رہا

آنکھوں نے رازداری محبت کی خوب کی
آنسو جو آتے آتے رہے تو لہو بہا

آئے تھے اک امید پہ تیری گلی میں ہم
سو آہ اس طرح سے چلے لوہو میں نہا

کس کس طرح سے میر نے کاٹا ہے عمر کو
اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کہا​
 
70

بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
اک دلِ غم خوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا

پنجہء گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو
گر نکالا میں گریباں سےتو دامن میں رہا

ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ‌ و برہمن میں رہا​
 
17

غمزے نے اُس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اُس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا

رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا

نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دواوں نے ہم کو ضرر کیا

کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا

جس دم کہ تیغِ عشق کھینچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا

دل زخمی ہو کے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا

ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مستِ یار
ذوقِ خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا

وہ دشتِ خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا

چاروں طرف ہیں خیمے کھڑے گردباد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا

لکنت تری زبان کی ہے سحر، جس سے شوخ
اک حرفِ نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا

بے شرم محض ہے وہ گنہ گار جس نے میر
ابرِ کرم کے سامنے دامان تر کیا​
 
72

کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلہء پُر پیج و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا

ایک ہی چشمک تھی فرصت صحبتِ احباب کی
دیدہء تر ساتھ لے مجلس سے پیمانہ گیا

گُل کھلے صد رنگ تو کیا بے پری سے اے نسیم
مدتیں گزریں کہ وہ گلزار کا جانا گیا

دور تجھ سے میر نے ایسا تعب کھینچا کہ شوخ
کل جو میں دیکھا اُسے مطلق نہ پہچانا گیا​
 
73

ہاتھ سے تیرے اگر میں نیم جاں مارا گیا
سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا

یک نگہ سے بیش کچھ نقصان نہ آیا اُس کے تئیں
اور میں بے چارہ تو اے مہرباں مارا گیا

وصل و ہجراں سی جو دو منزل ہیں راہِ عشق کی
دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا

جن نے سر کھینچا دیار عشق اے ابولہوس
وہ سراپا آرزو آخر جواں مارا گیا

کب نیازِ عشق نازِ حسن سے کھیچنا ہے ہاتھ
آخر آخر میر سر بر آستاں مارا گیا
 
74

محبت کا جب زورِ بازار ہوگا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہوگا

نہ خالی رہے گی مری جاگہ، گر میں
نہ ہوں گا تو اندہِ بسیار ہوگا

یہ منصور کا خونِ ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہوگا

کھنچے عہدِ خط میں‌ بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرح دار ہوگا

زمیں گیر ہو عجز سے تُو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہوگا

نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میر بھی یاں
جو ہوگا تو جیسے گنہ گار ہوگا​
 
75

اشک آنکھوں میں کب نہیں‌ آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا

ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں‌ آتا

صبر تھا ایک مونسِ ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا

دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں‌ آتا

(ق)

عشق کا حوصلہ ہے شرط ارنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں‌آتا

جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم!
پر سخن تابہ لب نہیں آتا!

دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا​
 
76

کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا

تو برسوں میں ملے ہے، یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا

کیا ہے جو اُٹھ گیا ہے پر بستہء وفا ہے
قیدِ حیات میں ہے تو میر آ رہے گا​
 
77

جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا
تہِ خاک بھی خاک آرام ہوگا

مرا جی تو آنکھوں میں‌ آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا

نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے
بہت اس میں ظالم تو بدنام ہوگا

ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں
تُو اے ماہ کس شب لبِ بام ہوگا

جگرچاکی، ناکامی، دنیا ہے آخر
نہیں‌ آئے جو میر کچھ کام ہوگا​
 
78

وہ نہانے لگا تو سایہء زلف
بحر میں تُو کہے کہ جال پڑا

خوبرو اب نہیں ہیں گندم گوں
میر ہندوستاں میں‌ کال پڑا​
 
Top