میر اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا - میر محمد تقی – میر

اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

ہم کشتگانِ عشق ہیں ابرو و چشمِ یار
سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا

ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں برنگِ عمر
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا

پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ بھی لگایا نہ جائے گا

اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اٹھا کہ پھر
دیوانِ حشر میں اسے لایا نہ جائے گا

اب دیکھ لے کہ سینہ بھی ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

ہم بیخودانِ محفلِ تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا

گو بیستوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن
سنگِ گرانِ عشق اٹھایا نہ جائے گا

یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا

میر محمد تقی – میر
 

جیا راؤ

محفلین
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا


واہ۔۔۔ بہت خوب۔۔۔ !!
 
Top