میر ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزا ہے یہ

آگ تھے ابتداے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ


بودِ آدم نمودِ شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ

شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلا ہے یہ

شور سے اپنے حشر ہے پردہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ

بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ

نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ

دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ

میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ

ہے رے بیگانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ

تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ

میرؔ کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

میر تقی میرؔ
 
Top