خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری کچھ روز و شب...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے کہ...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: روکوں مجال، لے گیا ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ روکوں مجال، لے گیا خود کو غزال لے گیا دام و سِحر سے عِشق کی جاں کو نِکال لے گیا کرکے فقیرِ ہجر سب جاہ و جلال لے گیا راحتِ وصل کب مِلی میرا سوال لے گیا اُس سے کہا نہ حالِ دِل در پہ ملال لے گیا کھائی قسم ہے جب نئی پھر سے خیال لے گیا وہ جو نہیں غزل نہیں کشْف و کمال لے...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے تا عُمْر کے وعدے پر دو...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی ! خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: دوستی اُن سے میری کب ٹھہری ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ دوستی اُن سے میری کب ٹھہری اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری حالِ دل خاک جانتے میرا گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری کیا عِلاج...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی ! دُکھ کب تِرے خیال سے...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ عاشِق ہُوں مگر...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے گھر جو مرضی...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلِش ::::: گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں نبرد آرا سا رہتے ہیں...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: پیار اچھّا نہ محبّت کا وبال اچّھا ہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ پیار اچھّا نہ محبّت کا وبال اچّھا ہے جس سے پُوری ہو تمنّا وہ کمال اچّھا ہے ضُعف سے جوشِ محبّت کو زوال اچّھا ہے مر مِٹے جانے کو ورنہ وہ جمال اچّھا ہے گھر بَسائے ہُوئے مُدّت ہُوئی جن کو، اُن سے اب بھی کیوں ویسی محبّت کا سوال اچّھا ہے کچھ سنبھلنے پہ گلی پھر وہی لے جائے گا دِل کا غم سے...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: چل اب یہاں سے، کسی اور کو بنانے جا ! ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ چل اب یہاں سے کسی اور کو بنانے جا کروں یقین میں تیرا گئے زمانے جا کہا یہ گریہ کا احوال سُن کے قاصد سے کہ خوب آتے ہیں ٹسوے اُنھیں بہانے جا صدا تھی دِل کی نہ مِلنے کے ہر تہیّہ پر بس ایک بار نصیب اور آزمانے جا بذاتِ خود بھی کہی بات پر مِلا یہ جواب یہ سبز باغ کسی اور کو دِکھانے جا...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: بدستِ دِل! ::::: Shafiq Khalish

    بدستِ دِل! کہے ہے اب بھی وہی دِل، کہ جا بتانے جا گُزر رہی ہے جو فُرقت میں وہ سُنانے جا چُھپا خُلوص تُو میرا اُنھیں جتانے جا جَبِیں بہ سنگِ درِ مہ جبیں لگانے جا نہ چاہتے ہیں وہ مِلنا تو کوئی بات نہیں بس ایک دِید سے اُن کی مجھے لُبھانے جا قریب جانے کا اُن کے کہے ہے کون تجھے دِکھا کے...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے جوحال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے تھکتے نہیں یہ کہہ کے، مِرے ہمنشیں رہے قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے زرخیزئ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر زیرِ...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش اِظہارِ محبّت پہ جو انجانے ہُوئے ہیں کہتے ہیں مجھے سب سے کہ، دِیوانے ہُوئے ہیں ہر شخص لئے آتا ہے مضمون نیا اِک کیا دِل کی کہی بات پہ افسانے ہوئے ہیں سوچیں تو تحمّل سے ذرا بیٹھ کے لمحہ کیوں عرضِ تمنّا پہ یُوں بیگانے ہُوئے ہیں سمجھیں نہیں احباب قیامت سے نہیں کم اب...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں ::::: Shafiq Khalish

    شاعری ! شفیق خلش شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں بھائی...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے لگی یہ...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: رحم و کرم پہ یاد کی، ٹھہری قضا ہے آج ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا محکم نہ ہو یقین کہ،...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار...
Top