خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں بیٹھیں ہیں مِلکیّت...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال جاتا کہاں سے ذہن...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں اُنھیں تو...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: سُنائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش سُنائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے ہو کورچشم کوئی تو کہاں نظر آئے رَوا قدم ہے ہر اِک اُس پہ اِنتہائی بھی ! مگر یہ تب، کہ ہمیں رازداں نظر آئے چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے زمیں کے رحم و کرم پر ہی اِنحصار یہ کیوں ذرا ہمیں بھی کہیں...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں حالات اب اِس دل کے بہت غور طلب ہیں آساں نہیں کُچھ، ضعف میں اُلفت سے کنارہ اعمال سب اِس مد میں بہت زور طلب ہیں آسودۂ اعصاب ہیں کب عِشق میں اُن کے سمجھیں جوخموشی سے کہ ہم جور طلب ہیں کچھ شرطِ وفا ضبط و خموشی سے ہے منسوب کچھ نالے رسائی...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلِش کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے گِریں فُرقِ...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی نہ مِلا کبھی کوئی رّدِ غم ، نہ ہی لب پہ آ کے ہنسی رہی کبھی خلوتوں میں بھی روز و شب تِری بزم جیسے سجی رہی کبھی یوں ہُوا کہ ہجوم میں، مجھے پیش بے نفری رہی سبھی مُشکلیں بھی عجیب تھیں رہِ وصل آ جو ڈٹی رہِیں نہ نظر میں اِک، نہ...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلِش ::::: اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلِش اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو وہ کڑی دُھوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے کچھ نہ شِکوے بھی آسماں سے رہے پَل کی فرقت نہ ہو گوارا جسے دُور کیسے وہ دِل بُتاں سے رہے سوچتے ہیں اب اُن حسینوں کو جن کی قربت میں شادماں سے رہے اُس کی یادوں نے کی پذیرائی درد دِل میں جو بےکراں سے رہے دُوریاں اُس پہ اِک قیامت ہیں دِل جو...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا میرے شعروں پر گمُاں ٹھہرا کسی اُستاد کا یا الہیٰ ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب ! اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی اُمّیدِ وصل اِس کا...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اِس کا نہیں مَلال، کہ سونے نہیں دِیا ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خَلِش اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات دِن تیرے ہجر نے کبھی...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے اُمیدِ وصل ہے جس نے مجھے سنبھالا ہے جو تم نہیں ہو، تو ہے زندگی اندھیروں میں مِرے نصیب میں باقی کہاں اُجالا ہے سکوت مرگ سا طاری تھا اک زمانے سے یہ کِس کی یاد نے پھر دِل مِرا اُچھالا ہے رہا نہ کوئی گلہ اب وطن کے لوگوں سے یہاں بھی خُوں...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: دل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلش دِل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے عِشق جب صُحبتِ بُتاں سے رہے لاکھ سمجھا لِیا بُزرگوں نے ! دُورکب ہم طِلِسمِ جاں سے رہے کب حَسِینوں سے عاشقی نہ رہی کب نہ ہونٹوں پہ داستاں سے رہے دِل میں ارمان کُچھ نہیں باقی اِک قدم آگے ہم زماں سے رہے دِل میں حسرت کوئی بھی باقی ہو ایسے جانے...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں، ہم نہ کہتے تھے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے تمھارے گھررہیں گے تم کوزنداں ہم نہ کہتے تھے نہ پاؤگے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی! ہراِک سے مت رہو دست وگریباں ہم نہ کہتے تھے بشر کی زندگی...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف ہوجائیں روز و شب کے بھی ایّام مختلف شام و سحر یہ دیں مجھے دُشنام مختلف کیا لوگ ہیں، کہ روز ہی اِلزام مختلف پہلےتھیں اِک جَھلک کی، یا مِلنے کی مِنّتیں آتے ہیں اُن کے اب مجھے پیغام مختلف دِل پھر بضد ہے لوٹ کے جانے پہ گھر وہی شاید لِکھا ہے...
Top