شفیق خلش شفیق خلش ::::: رحم و کرم پہ یاد کی، ٹھہری قضا ہے آج ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ
Khalish_UP.jpg

شفیق خلش

رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج
اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج

مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج
کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج

ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج
پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج

نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا
محکم نہ ہو یقین کہ، مجھ سے خفا ہے آج

وجہِ سرُور و کیف ہمیشہ رہی جو ذات
ترکِ تعلقات سے مجھ پر سزا ہے آج

اُس محشرِ خیال کی یادوں سے درد نے
ہر ضبط و اِنتہا سے تجاوز کِیا ہے آج

کیوں کُھل کے گفتگو کبھی اُن سے نہیں رہی
آنکھوں میں اِس ملال کی آئی گھٹا ہے آج

اب اور اِس حیات و مصائِب کا ذکر کیا
چُھٹکارا ہرغموں سے بَفضلِ خُدا ہے آج

وہ خُوب گو، جو باتوں سے تھکتا نہ تھا خلش
فرقت پہ اِس دیار کی، کیا بے نوا ہے آج

کافر یُوں بُت پرستی میں مُطلق نہیں خلش
اُس کی زباں پہ ہجر میں وِردِ خُدا ہے آج

شفیق خلش
 
آخری تدوین:
Top