شفیق خلش شفیق خلش ::::: غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش

غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو
کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو

مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے
ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو

ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں
عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو

ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں !
بعید اِس سے، اُنھیں اعتبار ہو کہ نہ ہو

کبھی چلیں نہ پھر اِک روز اُن کے گھر کو خلش
بِنا یہ سوچے اُنھیں اِنتظار ہو کہ نہ ہو

شفیق خلش
 
آخری تدوین:
Top