شفیق خلش شفیق خلش ::::: ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ

Khalish_UP.jpg

شفیق خلش

ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات

تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات

عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات


اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار بھی ہو
لِئے وہ خود میں جہنّم کی ایسی آگ تھی رات

رُکی رُکی کبھی سانسیں، کبھی نہ ہوش کوئی
گُزر رہے تھے عجَب مرحَلوں سے ہجر کی رات

برابراب بھی مِرے ذہن و دِل کو ڈستی ہے
تمھارے وعدۂ آمد سے ٹھہری مُوذی رات

اُمیدِ وصْل سے چَھٹتی نظر نہیں آتی !
جو زندگی پہ ہے طاری خلِش کی رات ہی رات

شفیق خلش
 

آوازِ دوست

محفلین
انتظار کا کرب ایک رات کو زندگی سے طویل اور بوجھل قدموں سے زیادہ گراں کر دیتا ہے وہ انتظار جو کسی کے وعدہء ملاقات سے شروع ہوتا ہے اور پھر ختم نہیں ہوتا رات کے بے کراں اندھیرے کی طرح رات کی سرحد کے اندر کبھی بھی نہیں کہیں بھی نہیں۔ یہ ختم نہیں ہوتا۔
 
Top