شفیق خلش شفیق خلش ::::: رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش

رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے
بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے

یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے
نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے

رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے
وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے

گِریں فُرقِ ہمقدم میں، سبھی جا ہی ضُعفِ دِل سے
کب اُٹھیں قدم خلِش اب کسی راہ بھی سنبھل کے

مجھے کچھ سمجھ نہ آئے کہ اچانک ایسے کیونکر
اب بدل دِیں تم نے راہیں مِری زندگی بدل کے

ہُوا نقش میرے دل پر، تِرا حُسن، تیرا چلنا
وہ طِلِسمِ جاں کے جس سے رہا دِل مِرا مچل کے

پسِ مرگ تِیرَگی کا مجھے روز سامنا ہے
کہاں دِن چڑھا دوبارہ تِرے بعد میرا ڈھل کے

کب اب اِن میں زندگی کی رہی کچھ رَمَق بھی باقی
تِرے مُنتظر ایّام اب، ہُوئے مُنتظر اجَل کے

تِری طرح بے مروّت کبھی لوٹ کر نہ آئی
تِرے آنے پر قضا جو، گئی ایک بار ٹل کے

ہے عجیب شہرِدِل بھی، کہ نہیں ہے اِس میں اِمروز
نہ ہی دن چڑھے نیا کچھ ، وہی سانحے ہیں کل کے

ہُوئے دفن ذات میں ہی خلِش اِس نگر میں آ کر
بَھلا اور کیا وہ کرتے، تِرے شہر سے نِکل کے

شفیق خلش
********
 
آخری تدوین:
Top