شفیق خلش شفیق خلِش ::::: اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلِش

اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو
وہ کڑی دُھوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو

جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو
اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو

اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو
جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو

غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو
ہوش آنے پہ وہی در تِرے پایا دِل کو

کب تِرے ہجر نے، کُچھ کم ہے جَلایا دل کو
آنکھ کیا چیز ہے، اِس نے تو رُلایا دِل کو

سب قصُور اِس دلِ مُضطر کا ہو، ایسا بھی نہیں
تیری صُورت نے محبّت میں پھنْسایا دِل کو

تجھ سے پہلی ہی مُلاقات میں ایسا کھویا
پھر کبھی پاس بھی اپنے نہیں پایا دِل کو

پھر رَواں اشک ہیں آنکھوں سے جو رُکتے ہی نہیں
پھر خیال اُس دلِ بے رحم کا، آیا دل کو

اِس نے اُٹھنے پہ قیامت بھی اُٹھائی دُگنی
جب بھی اُمّید سے بہلا کے سُلایا دل کو

کیوں پیام اب نہیں بھیجے وہ تواتر سے، خلِش
جس نے ہرطرز و طریقے سے لُبھایا دل کو

شفیق خلِش
 
آخری تدوین:
Top