شفیق خلش شفیق خلش ::::: تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش

تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں
حالات اب اِس دل کے بہت غور طلب ہیں

آساں نہیں کُچھ، ضعف میں اُلفت سے کنارہ
اعمال سب اِس مد میں بہت زور طلب ہیں

آسودۂ اعصاب ہیں کب عِشق میں اُن کے
سمجھیں جوخموشی سے کہ ہم جور طلب ہیں

کچھ شرطِ وفا ضبط و خموشی سے ہے منسوب
کچھ نالے رسائی کو وہاں شور طلب ہیں

اِک جور پھر اُس پر یہ کہ چُپ سادھ سہیں ہم
کیا اُن کی محبّت کے خلِش طور، طلب ہیں

شفیق خلش
 
آخری تدوین:
Top