شفیق خلش شفیق خلش ::::: آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
Khalish_UP.jpg

شفیق خلش

آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف
بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف

کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ
جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف

اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے
پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف

فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال
جاتا کہاں سے ذہن بھی گھربار کی طرف

کیسے بچائے خود کو کوئی ڈوبنے سے جب
کھنچتی ہو ناؤ زیست کی منجھدار کی طرف

جاتا ہے لے کے اب بھی تمھاری گلی میں دِل
پڑتی ہے کب نظر درودیوار کی طرف

افسوس پورے شہر میں رُسوائیوں کا تھا
کب دیتے ہم توجہ ہیں دو چار کی طرف

یوں تو چمن میں اور ثمربار تھے بہت
مائل تھا دل مِرا اُسی نوبار کی طرف

حائل رُکاوٹوں میں اضافہ ہُوا بدیس
لایا ہے عِشق کھینچ کے بیگار کی طرف

کیا زندگی کا ہم سے جُدا فیصلہ بھی ہو
دِل کا جُھکاؤ اب بھی وہی یار کی طرف

قائم رہے انا پہ ہمیشہ ہی ہم خلش !
اٹھے نہیں قدم کبھی دربار کی طرف

حاصل فقط خلش ہو خلش کچھ جتن بِنا
آیا ہے مال خود بھی خریدار کی طرف ؟

شفیق خلش
 
Top