شفیق خلش شفیق خلش ::::: کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلِش

کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے
ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے

یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے
وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے

بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو
کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے

اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ بدیس آ کے اُس کو
کہیں بُھول ہی نہ جاؤں غمِ روزگار کرتے

سدا کوستے ہی رہتے ہم اُس آہِ بے اثر کو
جو ہمیشہ، مثلِ ماضی، نہ وہ ہم سے پیار کرتے

ہو سبیل کچھ تو یا رب، مِلے شرفِ کامرانی
ہُوئی عمر اِک دُعا میں مجھے یار یار کرتے

بھلا کیا جواب دیتے ربِ حُسنِ دوجہاں کو
جو پرِی وشوں کا اُٹھتے فقط انتظار کرتے

یہ خلِش عذابِ جاں سی نہ دلِ خلِش میں رہتی
وہ بھی ایفا اپنا وعدہ، اگر ایک بار کرتے

شفیق خلِش
 
Top