شفیق خلش شفیق خلش ::::: زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
Khalish_UP.jpg

شفیق خلش

زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر
اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر

پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں
پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر

جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز
پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر

املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں
بیٹھیں ہیں مِلکیّت وہ سب اغیار بیچ کر

سایے سِوا، وسیلۂ خوراک بھی جو ہوں !
لاحق ہو بُھوک ایسے سب اشجار بیچ کر

ہیں کمسنی سے زیرِ تسَلُّط غمِ شکم !
بدلِیں نہ ہم سے حالتیں ادوار بیچ کر

گُفت و شُنِید ہی میں ہے خالی مکاں کا حل
قبل اِس کے مال اُڑائیں گھراغیار بیچ کر

آبا کی تاجداری کا جن کو یہاں تھا زعم
آئے پلٹ کے کچھ نہ کچھ ہر بار بیچ کر

اچّھا ہُوا کہ کچھ تو حقیقت کُھلی، خلش
کھا جاتے ورنہ ہم کو بھی غمخوار بیچ کر

شفیق خلش
 
Top