شفیق خلش شفیق خلش ::::: چل اب یہاں سے، کسی اور کو بنانے جا ! ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ

چل اب یہاں سے کسی اور کو بنانے جا
کروں یقین میں تیرا گئے زمانے جا


کہا یہ گریہ کا احوال سُن کے قاصد سے
کہ خوب آتے ہیں ٹسوے اُنھیں بہانے جا

صدا تھی دِل کی نہ مِلنے کے ہر تہیّہ پر
بس ایک بار نصیب اور آزمانے جا

بذاتِ خود بھی کہی بات پر مِلا یہ جواب
یہ سبز باغ کسی اور کو دِکھانے جا


ہر ایک بات تِری مان لوں گا میں ناصح !
پھر ایک بار جو اُن سے مجھے مِلانے جا


نہ چاہتے ہیں مزید اب وہ رسم و راہ کوئی
غرض بِنا نہیں اُلفت تو پھر منانے جا


پسِیج دِل کو اب اُن کے فروتنی سے خلِش
آنا کو چھوڑ لُٹا عِجز کے خزانے جا


شفیق خلش

 
Top