طارق شاہ

محفلین


بدستِ دِل!


کہے ہے اب بھی وہی دِل، کہ جا بتانے جا
گُزر رہی ہے جو فُرقت میں وہ سُنانے جا

چُھپا خُلوص تُو میرا اُنھیں جتانے جا
جَبِیں بہ سنگِ درِ مہ جبیں لگانے جا

نہ چاہتے ہیں وہ مِلنا تو کوئی بات نہیں
بس ایک دِید سے اُن کی مجھے لُبھانے جا

قریب جانے کا اُن کے کہے ہے کون تجھے
دِکھا کے دُور سے مجھ کو، وہی ستانے جا

اب اور دردِ جُدائی میں سہہ نہیں سکتا
ہُوئے ہیں تَیر یُوں ایّام جُوں زمانے، جا

ہے اِلتجا، کہ ذرا اپنے بھی سُکوں کے لئے
خوشی سے توُ مِری، مجھ کو کبھی مِلانے جا

رہا میں کم نہیں عاجِز بَدستِ دِل بھی خلِش
گلی میں اُن کی بضد ہے کسی بہانے جا

شفیق خلش
 
آخری تدوین:
Top