شفیق خلش شفیق خلش ::::: آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزل

آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے
گھر پھربھی میری قید کا بُہتان تھا لئے

طرزوعمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے
جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے

کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے
دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے

دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے
ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ میں انجان تھا لئے

مُرجھا گئے وہ دِل کو، زمانے گزر گئے
خوش باش زندگی کے جو ارمان تھا لئے

احباب مِلنے میری اسیری میں آئے جب
داروغہ میری موت کا فرمان تھا لئے

افسوس کیوں جو موت کا باعث بھی تم رہے
خواہش یہی تو دِل میں وہ نادان تھا لئے

حیرت ہُوئی جو سنگ زنی میں تھا پیش پیش
وہ شخص، سر کئی مِرے احسان تھا لئے

اُس مدّ و جزْرِ عِشق سے بچنا، نصیب کیوں
کم سرو قد وہ ذات میں طوُفان تھا لئے

احساس ہو چَلا ، کہ قضا آچُکی خلش
عالم وہ دیدنی کا مِری جان تھا لئے

شفیق خلش
 
Top