شفیق خلش شفیق خلش ::::: مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

شفیق خلش

مِلنے کی آس میں یُوں کہِیں کے نہیں رہے
جس جس جگہ اُمید تھی، جا جا وہیں رہے

جوحال پُوچھنے پہ نہ کم چِیں جَبیں رہے
تھکتے نہیں یہ کہہ کے، مِرے ہمنشیں رہے

قابل ہم اُن کے ہجْر میں غم کے نہیں رہے
خود غم اب اُن کا دیکھ کے ہم کو حزیں رہے

زرخیزئ شباب سے پُہنچیں نہ عرش پر
زیرِ قدم خدا کرے اُن کے زمِیں رہے

عاشِق کے لب پہ حُسن کی تعریف میں وہی
ہو گفتگوئے ناز، جو عرشِ برِیں رہے

مرہونِ مِنّت اُن سبھی احباب کا ہُوں، جو
ہو مُعترِف سُخن کے مِرے نکتہ چیں رہے

ہے بادشاہت اُن کی ابھی تک اُسی طرح
اِس دِل پہ، گو نظر میں ہماری نہیں رہے

بُھولیں گے ہم اُنھیں نہ سرُور اُن کے حُسن کا
عمرِخضر وہ دُوری سے ہم پر حَسِیں رہے

طاری ہیں فرقتوں میں وہی قرب کے مزے
صد شُکر وہ خیال سے دِل کے قرِیں رہے

خواہش رہی، کبھی نظر آئیں تو وہ خلش
دِل کی انگشتری میں جو مثلِ نگِیں رہے

شفیق خلش
 
Top