شفیق خلش شفیق خلش ::::: بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
شفیق خلش

عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے
ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے

زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل
وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے

بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن
دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے

کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی
ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے

وہ جنھیں ہم نے دی ذرا عِزّت
پَھیلے ایسے کہ گو خُدا بھی ہُوئے

ظلم پھر ہوش نے نہ کم ڈھائے
جب ذرا غم سے ہم رہا بھی ہُوئے

کیا سِتم! حال یُوں ہے جن کے سبب
وہ مَرَض کا مِرے دوا بھی ہُوئے

اُس نے سوچا تو ہوگا میری طرح
کیا الگ ہو کے ہم جُدا بھی ہُوئے

بات سُننے کو خود بَضِد تھے، خلش
جب کہی دِل کی تو خفا بھی ہُوئے


شفیق خلش
 
Top