اردو نظم

  1. فرخ منظور

    ن م راشد آگ کے پاس ۔ ن م راشد

    آگ کے پاس پیرِ واماندہ کوئی کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں نوجوان بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں (اِک رقابت کی سیاہ لہر بہت تیز مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے) جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گلداں کی مس و سیم کے کاسوں کی چمک! اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے کوئلے آگ میں جلتے ہوئے کن یادوں کی...
  2. کاشفی

    حبیب جالب کافی ہاؤس - حبیب جالب

    کافی ہاؤس حبیب جالبؔ کافی ہاؤس میں دن بھر بیٹھے، کچھ دُبلے پتلے نقّاد بحث یہی کرتے رہتے ہیں، سُست ادب کی ہے رفتار صرف ادب کے غم میں غلطاں، چلنے پھرنے سے لاچار چہروں سے ظاہر ہوتا ہے جیسے برسوں کے بیمار اُردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر، میرؔ و غالبؔ، آدھا جوشؔ یا اِک آدھ کسی کا مصرعہ، یا...
  3. کاشفی

    عالی بنگلہ نار - جمیل الدین عالی

    بنگلہ نار جمیل الدین عالی - ( ۱۹۵۹ ) باتیں بہت سنیں عالیؔ کی، اب سُن لو یہ بانی جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی، وہ نہیں پاکستانی ہولے ہولے نوکا ڈولے، گائے ندی بھٹیالی گیت کِنارے، دوہے لہریں، اب کیا کہوے عالیؔ پیچھے ناچیں ڈاب کے پیڑ، اور آگے پان سُپاری اِنھی ناچوں کی تھاپ سے اُبھرے...
  4. کاشفی

    جوش غرورِ اَدَب - جوش ملیح آبادی

    غرورِ اَدَب (جوش ملیح آبادی) میرے جلسے سے اُٹھ آنے پر خفا ہے ہمنشیں؟ شاعروں کی فطرتِ عالی سے تُو واقف نہیں جوہرِ ذاتی کا جب افسردہ ہوتا ہو وقار کفر سے بدتر ہے اُس موقع پہ وضع انکسار ناشناسانِ ادب بھُولے ہوئے ہوں جب شعُور اُن مواقع پر عبادت کے برابر ہے غرور دل ہمارا جذبہء غیرت...
  5. فرخ منظور

    آئینہ از عزیز قیسی

    آئینہ از عزیز قیسی آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو تو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی تو نے جی بھر کے وہ ہر خطِ بدن دیکھا ہے ان کی تنہائی کا دلدار ہے دم ساز ہے تو آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو...
  6. فرخ منظور

    ن م راشد مریل گدھے از ن م راشد

    مریل گدھے تلاش۔۔۔ کہنہ، گرسنہ پیکر برہنہ، آوارہ، رہگزاروں میں پھرنے والی تلاش۔۔۔۔ مریل گدھے کے مانند کس دریچے سے آ لگی ہے؟ غموں کے برفان میں بھٹک کر تلاش زخمی ہے رات کے دل پر اُس کی دستک بہت ہی بے جان پڑ رہی ہے (گدھے بہت ہیں کہ جن کی آنکھوں میں برف کے گالے لرز رہے ہیں) ہوا کے...
  7. فرخ منظور

    ظہیر کاشمیری شاہدہ ۔ از ظہیر کاشمیری

    شاہدہ کسی سنولائی ہوئی شام کی تنہائی میں دو سرکتے ہوئے سایوں میں ہوئی سرگوشی بات چھوٹی تھی --- مگر پھیل کے افسانہ بنی میں نے اکثر یہی سوچا --- ترا خوش رنگ بدن نقرۂ ناب کا ترشا ہوا ٹکڑا ہو گا دودھیا ۔۔۔۔۔ سرد ۔۔۔۔ حرارت سے تہی جس پہ طاری ہو خود اپنے ہی تصور کا جمود کوئی اعجازِ پرستش...
  8. کاشفی

    میں تجھے محسوس کرنا چاہتی ہوں - ناہید ورک

    میں تجھے محسوس کرنا چاہتی ہوں (ناہید ورک) مجھ کو اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے کتنے زمانے ہوگئے ہیں سُرمئی شاموں کے پہرے میں طلب کی ریت پر تنہائی ننگے پیر چلتی ہے تو میرا دل وصالِ معنی سے بچھڑے ہوئے اک حرفِ تنہا کی طرح بجھ جاتا ہے میری سحر سے رات جب سرگوشیاں کرتی ہے تو کوئی بھی اک لبریز...
  9. کاشفی

    افتخارِ فکر و فن (فیض احمد فیض کی یاد میں)- مومن خاں شوق

    افتخارِ فکر و فن (فیض احمد فیض کی یاد میں) مومن خاں شوق وہ رازدانِ علم و فن، ادب نواز شخصیت وہ افتخارِ فکر و فن روایتوں کا گل ستاں، شرافتوں کی انجمن اور اس کی زندگی تمام حوصلوں کا بانکپن ورق ورق حدیثِ گُل، کتابِ آرزو تمام لکھا کیا قلم قلم، وفا کی داستانِ غم نگر نگر پھرا کیا، شاعری...
  10. مغزل

    جون ایلیا نظم : ثبوت --- جون ایلیا

    ’’ ثبوت ‘‘ کس کو فرصت ہے مجھ سے بحث کرے ۔۔۔۔ اور ثابت کرے کہ میراوجود ۔۔۔۔۔ زندگی کے لیے ضروری ہے ۔۔ جون ایلیا
  11. کاشفی

    نوحہء حیات - محشر لکھنوی

    نوحہء حیات (محشر لکھنوی) مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشر ہمیں چند دن میں ختم ہے اپنا بھی دورانِ حیات گھٹ گیا زورِ جوانی ،ہوگئے عضا ضعیف کون اب سر پر اُٹھائے بار احسانِ حیات خیریت سے جیتے جیتے ہوگئے چالیس سال اب کہاں وہ روز و شب کہئے جنہیں جانِ حیات کان میں آخر صدائے الرحیل آنے...
  12. کاشفی

    بابل - صدف مرزا

    بابل (صدف مرزا) میرے لہو میں دیئے جس کے خوں کے جلتے ہیں نقوش جس کے میرے خال و خد میں ڈھلتے ہیں مہک سے جس کی گُل و لالہ مجھ میں کھلتے ہیں میری ہنسی میں سبھی رنگ اس کے ملتے ہیں وہ جس کی تھام کے انگلی کو چلنا سیکھا تھا قلم سے اس کے ہی میں نے یہ لکھنا سیکھا تھا وہ جس نے پڑھنا مجھے حرف...
  13. کاشفی

    عیدِ غریباں - بستیاں ڈوب گئیں ، اہل وطن ڈوب گئے - ڈاکٹر سکندر شیخ مطرب

    عیدِ غریباں ( ڈاکٹر سکندر شیخ مطرب) اپنے سیلاب زدگان بھائیوں اور بہنوں کے نام اس کے دل پہ بھی اداسی کی گھٹا چھائے گی دور تک جب اسے ویرانی نظر آئے گی شہرِ خاموش کو دیکھے گی تو ڈر جائے گی کیا ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کچھ نہ سمجھ پائے گی عید چپ چاپ دبے پاؤں گزر جائے گی کتنے مجبور کسانوں کے...
  14. کاشفی

    عید - مومن خاں شوق

    عید (مومن خاں شوق) بہارِ بے خزاں ہے عید کا دن گُلوں کا کارواں ہے عید کا دن مسرت رقص فرما ہر طرف ہے نشاطِ جاوداں ہے عید کا دن ----- روزِ روشن ، بہارِ صبح عید روزہ داروں کو رحمتوں کی نوید چاند کو ہم نے یوں بھی دیکھا ہے چاند کی دید اپنے یار کی دید ----- لبِ شیریں پہ مسرت کے ترانے آئے...
  15. مغزل

    لیاقت علی عاصم ارضِ پاک کے لیے ایک دعائیہ - از : لیاقت علی عاصم

    ارضِ پاک کے لیے ایک دعائیہ تیرے دریاؤں میں مانجھیوں کی صدا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں ساحلوں ساحلوں چاہتوں کی فضا ، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں تیرے جنگل جزیرے مہکتے رہیں ، تیرے مرجان موتی چمکتے رہیں تیرے سبزے کی چادر پہ بادِ صبا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں کوئی سچل ہو یا...
  16. کاشفی

    وُہ - احسان بن دانش

    وُہ (احسان بن دانش) وہ علم میں جس کے اول سے ہر راز ِنہانِ ہستی ہے وہ جس کے اشاروں پر رقصاں عالم کی بلندی پستی ہے وہ جس کی نظر کے تاروں سے وحشی کا گریباں سلتا ہے وہ جس کے تجلی خانے سے خورشید کو جلوہ ملتا ہے وہ جس کا وظیفہ کرتے ہیں کُہسار کے بیخود نظارے وہ جس کی لگن میں تر رہتے ہیں...
  17. کاشفی

    چاند اور ہم - افسر میرٹھی

    چاند اور ہم (افسر میرٹھی) چاندنی افسردہ بھی ہے زرد بھی چھَن رہا ہے ہلکا ہلکا درد بھی دل کی دھڑکن گویا دل کو چھوڑ کر منتشر ہے چاندنی کے فرش پر کچھ پریشانی ہے ایسی ماہ میں جیسے کھو جائے مسافر راہ میں چاندنی میں کوئی شے بیتاب ہے حسن کا شاید پریشاں خواب ہے چاند ہے اشکوں سے منہ...
  18. فرخ منظور

    ن م راشد ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔ از ن م راشد

    ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں! عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا عشق اپنی ہی کمی ہے گویا! اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں جس سے بول اٹھتے ہیں...
  19. کاشفی

    شامِ جوانی -صبح پیری - شفق عماد پوری

    شامِ جوانی لو آیا پیغام جوانی لائی مژدہ شام جوانی آئی رات مرادوں والی بدلی صورت بھولی بھالی تازہ اُمنگیں جوش پر آئیں لاکھوں اُمیدیں لے کر آئیں عمر نے مَل کے شباب کا غازہ کر دیا حُسن کا گلشن تازہ سبزہء خط بھی نمو پر آیا سنبل تر لبِ جُو لہرایا سُرخی لگی گالوں پہ چمکنے رنگ...
  20. رانا

    نظم - امرتا پریتم

    صرف دو رجواڑے تھے ایک نے مجھے اوراسے بےدخل کیا تھا اوردوسرے کو ہم دونوں نے تیاگ دیا تھا اور ننگے آسمان کے نیچے میں کتنی ہی دیر جسم کی بارش میں بھیگتی رہی وہ کتنی ہی دیر جسم کی بارش میں گلتا رہا پھر برسوں کے موہ کو ایک زہر کی طرح پی کر اس کے کانپتے ہاتھ نے میرا ہاتھ پکڑا چلو لمحوں کے سر...
Top