ن م راشد مریل گدھے از ن م راشد

فرخ منظور

لائبریرین
مریل گدھے



تلاش۔۔۔ کہنہ، گرسنہ پیکر
برہنہ، آوارہ، رہگزاروں میں پھرنے والی
تلاش۔۔۔۔ مریل گدھے کے مانند
کس دریچے سے آ لگی ہے؟
غموں کے برفان میں بھٹک کر
تلاش زخمی ہے
رات کے دل پر اُس کی دستک
بہت ہی بے جان پڑ رہی ہے
(گدھے بہت ہیں کہ جن کی آنکھوں
میں برف کے گالے لرز رہے ہیں)
ہوا کے ہاتھوں میں تازیانہ
تمام عشقوں کو راستے سے
(تلاش کو بھی)
بھگا رہی ہے
(تلاش کو عشق کہہ رہی ہے!)


یہ رات ایسی ہے
حرف جس میں لبوں سے نکلیں
تو برف بن کر،
وہ برف پارے کہ جن کے اندر
ہزار پتھرائی، ہجر راتیں،
ہزار پتھرائی ہجر راتوں کے بکھرے پنجر
دبے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔۔
تلاش کیا کہہ رہی ہے؟
(دیکھو، مری کہانی میں رات کے تین بچ چکے ہیں
اگر میں بے وزن ہو چکی ہوں۔۔۔۔
اگر میں مریل گدھا ہوں
مجھ کو معاف کر دو۔۔۔۔)
تلاش ہی وہ ازل سے بوڑھا گدھا نہیں ہے
دھکیل کر جس کو برف گالے
گھروں کے دیوار و در کے نیچے
لِٹا رہے ہیں۔۔۔۔۔

گدھے بہت ہیں جہاں میں: (ماضی سے آنے والے
جہاز کا انتظار مثلاً ۔۔۔۔۔۔۔)
(اور ایسے مثلاً میں ثائے ساکن!)
یہ اجتماعی حکایتیں، ایّتیں، کشاکش،
یہ داڑھیوں کا، یہ گیسوؤں کا ہجوم مثلاً۔۔۔۔
یہ الوؤں کی، گدھوں کی عفت پہ نکتہ چینی۔۔۔۔۔
یہ بے سرے راگ ناقدوں کے۔۔۔۔۔۔
یہ بے یقینی۔۔۔۔۔
یہ ننگی رانیں، یہ عشق بازی کی دھوم مثلاً۔۔۔۔۔
تمام مریل گدھے ہیں۔۔۔۔
(مریل گدھے نہیں کیا؟)

دریچہ کھولو
کہ برف کی لے
نئے توانا گدھوں کی آواز
ساتھ لائے
تمہاری روحوں کے چیتھڑوں کو سفید کر دے!


(ن م راشد)
 
Top