کاشفی

محفلین
بنگلہ نار
جمیل الدین عالی - ( ۱۹۵۹ )

باتیں بہت سنیں عالیؔ کی، اب سُن لو یہ بانی
جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی، وہ نہیں پاکستانی

ہولے ہولے نوکا ڈولے، گائے ندی بھٹیالی
گیت کِنارے، دوہے لہریں، اب کیا کہوے عالیؔ

پیچھے ناچیں ڈاب کے پیڑ، اور آگے پان سُپاری
اِنھی ناچوں کی تھاپ سے اُبھرے سانوری بنگلہ ناری

سانوری بنگلہ ناری جس کی آنکھیں پریم کٹورے
پریم کٹورے جن کے اندر کِن کِن دُکھوں کے ڈورے

دُکھوں کے ڈورے مِٹ جائیں گے جب کوئی پیار سے چومے
لیکن پیار سے چُومنے والا دریا دریا گھُومے

دریا دریا گھُومے مانجھی، پیٹ کی آگ بجھا نے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کِس کِس کو پہچانے ؟

کِس کِس کو پہچانے مانجھی، نینوں کا رَس سُوکھا
نینوں کا رس سوکھتا جائے، مانجھی سوئے بھوکا !

بھوکی نیندوں والے مانجھی، ہم پچھّم سیلانی
ہم پچھّم سیلانی مانگیں سبزہ رُوپ جوانی

سبزہ رُوپ جوانی ہو، اور سُندر بن کی چھایا
سُندر بن کی چھایا میں چھپ جائے جیون مایا

ہم پچھّم سیلانی، مانجھی، آنے جانے والے
کب ہُوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟

یہ تری لوہا لاٹ سی بانہیں، جن سے ڈریں منجدھاریں
اِن باہوں کو چار طرف سے کتنے دھیان پکاریں

او مانجھی سُن دھیان پکاریں، آ پہنچے وہ کنارے
اِک ترے من میں جوت جگے تو چھَٹ جائیں اندھیارے!

او مانجھی تو اپنے ہی من میں دھیان کی جوت جگَا لے
کب ہوئے آنے جانے والے روگ مٹانے والے؟


بشکریہ : کمال ابدالی
ماخذ: لاحاصل
جمیل الدّین عالی
طبع دوم (اضافوں کے ساتھ)، ۱۹۸۴
مکتبہ اسلوب ، پوسٹ بکس ۲۱۱۹ ، کراچی ۱۸​
 
Top