کاشفی

محفلین
میں تجھے محسوس کرنا چاہتی ہوں
(ناہید ورک)

مجھ کو اپنے آپ سے بچھڑے ہوئے
کتنے زمانے ہوگئے ہیں
سُرمئی شاموں کے پہرے میں
طلب کی ریت پر تنہائی ننگے پیر چلتی ہے
تو میرا دل وصالِ معنی سے بچھڑے ہوئے
اک حرفِ تنہا کی طرح بجھ جاتا ہے
میری سحر سے رات
جب سرگوشیاں کرتی ہے
تو کوئی بھی اک لبریز لمحہ جسم سے باہر نہیں آتا
نہ ہونٹوں پر کوئی بوسہ
مرے احوال کی تمہید باندھتا ہے
یہی ہوتا ہے میری آرزو کے سب سِرے
حسرت کی تاروں میں اُلجھ کر
میرے اندر سانس تو لیتے ہیں
لیکن تیرے دل سے میرے دل تک
فاصلوں کی وہ جو
اک دیوار حائل ہے
وہ جوں کی توں ہمارے درمیاں
موجود رہتی ہے
وہ تنہائی وہ برسوں کی خموشی
(جوگماں کی دھند میں لپٹی ہوئی ہے)
میرا سایہ بن کے میرے ساتھ رہتی ہے
دلِ خاموش اس سب سلسلے سے تھک گیا ہے
اس سے پہلے لاتعلق اور لمبی تلخیوں کی
یہ کہانی زرد پڑ جائے
یہ چُپ دیمک کی مانند
زندگی کو چاٹ جائے
میں یقیں کےساتھ
تجھ کو اور تیری روح کو
محسوس کرنا چاہتی ہوں
رات دن خوشبو کی مانند
تیری چاہت اور سنگت میں مہکنا چاہتی ہوں۔۔۔
 
Top