آئینہ از عزیز قیسی

فرخ منظور

لائبریرین
آئینہ از عزیز قیسی

آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو
تو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے
ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے
وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی
تو نے جی بھر کے وہ ہر خطِ بدن دیکھا ہے
ان کی تنہائی کا دلدار ہے دم ساز ہے تو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

کیا وہ شاعر کی طرح خود کو کبھی دیکھتے ہیں؟
ٹکٹکی باندھ کے کیا اپنی چھبی دیکھتے ہیں؟
شوخ، معصوم، جواں، مست، سجل، بے پرواہ
کیا وہ خود اپنے یہ انداز سبھی دیکھتے ہیں؟
اتنا گم سم ہے کہ خود اُن کا اِک انداز ہے تو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

رنگِ رُخ کیا کبھی اور نکھر جاتا ہے؟
آنکھیں جھکتی ہیں تو کیا روپ سنور جاتا ہے؟
کھوئے کھوئے سے وہ کچھ سوچ کے جب ہنستے ہیں
کیا کوئی نام بھی ہونٹوں پہ ابھر آتا ہے؟
ان کے جذبات کی سہمی ہوئی آواز ہے تو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

کبھی گھبرائے ہوئے بھی تو وہ آتے ہوں گے
دل کی دھڑکن کو جو رخسار پہ پاتے ہوں گے
کانپتا جسم سنبھالے نہ سنبھلتا ہو گا
اپنی آنکھوں سے بھی خود آنکھ چراتے ہوں گے
ضبطِ ناکام کا گھبرایا ہوا ناز ہے تُو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

سنبلیں زلف بنانے وہ جب آئیں گے نا
پہلے اس چاند سے مکھڑے کی بلائیں لینا
پھر زباں تجھ کو جو مل جائے تو سرگوشی سے
حسن کو اور نکھرنے کی دعائیں دینا
خلوتِ حسن میں اِک عشق کی آواز ہے تُو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا تو ہمراز ہے تُو

 
Top