کاشفی

محفلین
نوحہء حیات
(محشر لکھنوی)

مار ڈالا حسرتوں کے غم نے اے محشر ہمیں
چند دن میں ختم ہے اپنا بھی دورانِ حیات

گھٹ گیا زورِ جوانی ،ہوگئے عضا ضعیف
کون اب سر پر اُٹھائے بار احسانِ حیات

خیریت سے جیتے جیتے ہوگئے چالیس سال
اب کہاں وہ روز و شب کہئے جنہیں جانِ حیات

کان میں آخر صدائے الرحیل آنے لگی
کچھ نہ ہم سے ہوسکا تھا جو کہ شایانِ حیات

اُف رے مستیء شباب، اللہ رے طغیانیءِ شوق
خوب کی جی کھول کر سیر گلستانِ حیات

ذرّہ ذرّہ دفتر مقصد تھا لیکن کیا ملا
چھان ڈالی ساری توسیع بیابانِ حیات

ہائے اُس دل کو سپرد نفس اماّرہ کیا
بدو فطرت سے تھا مضمر جس میں عرفانِ حیات

ہائے وہ دل نذر خواہشہائے بیجا کردیا
صدر میں پیکر کے جو تھا مرتبہ دانِ حیات

فکر تسخیرِ بتاں اُس جذب سے ہوتی رہی
جو کہ تھا شیرازہ بند جزو ایمانِ حیات

یہ حواس ظاہری اور یہ حواس باطنی
شکر کے سجدے کرو جب تک ہیں مہمانِ حیات

ہو رہا ہے چشمہء آرام مانند سراب
تم سمجھتے ہو ترقی پر ہے طوفانِ حیات

ڈوبتا ہے نور آنکھوں کا برنگ نجم صبح
اب تو آئینہ اُٹھا کر دیکھ لو شانِ حیات

ہورہی ہے یوسف بےکارواں منہ میں زباں
گر رہے ہیں دانت جو تھے رُکنِ ایوانِ حیات

ہاتھو ں کا رعشہ خبر دیتا ہے بڑھ کر متصل
چھوٹنے ہی کو ہے کوئی دم میں دامانِ حیات

ضعف سے تھرا کے دونوں پاؤں دیتے ہیں خبر
آگیا نزدیک آخر وقت پایانِ حیات

ایک دن وہ تھا نمو پر اپنی خوش ہوتے تھے دوست
آج وہ دن ہے کہ ہم ہیں مرثیہ خوانِ حیات

عقل رکھتے ہو تو قبل از مرگ مرنا خوب ہے
محشر اس دنیا میں کب تک آخر ارمانِ حیات
 
Top