شامِ جوانی -صبح پیری - شفق عماد پوری

کاشفی

محفلین
شامِ جوانی

لو آیا پیغام جوانی
لائی مژدہ شام جوانی

آئی رات مرادوں والی
بدلی صورت بھولی بھالی

تازہ اُمنگیں جوش پر آئیں
لاکھوں اُمیدیں لے کر آئیں

عمر نے مَل کے شباب کا غازہ
کر دیا حُسن کا گلشن تازہ

سبزہء خط بھی نمو پر آیا
سنبل تر لبِ جُو لہرایا

سُرخی لگی گالوں پہ چمکنے
رنگ لگا کندن سا دمکنے

نیمچے دوا بروے ہلالی
جائے جن کا وار نہ خالی

تارا سی وہ اُجالی آنکھیں
نور کے سانچے میں ڈھالی آنکھیں

وصل کی راتوں میں جاگنے والی
بادہء عشرت کی متوالی

پلکیں رسیلی ڈورے گلابی
مردم دیدہ مست شرابی

قد وہ چھر ہیرا پھول سا چہرا
حُسن کے پھولوں کا سر سہرا

پھولو پھلو نو عمر جوانو!
اتنا میرا کہنا مانو

کسی پل پر نہ بہت اترانا
یکساں کب رہتا ہے زمانا


صبح پیری

شام جوانی ہے جانے والی
صبح پیری ہے آنے والی

یہ نقشہ یہ سن نہ رہے گا
رات کٹی اور دن نہ رہے گا

تیر سا بانکا قد یہ کشیدہ
اک دن ہوگا کماں سا خمیدہ

گیسوے پر خم کالے کالے
بن جائیں گے روئی کے گالے

بچپن کے رشتے ٹوٹیں گے
مُنہ بولے ساتھی چھوٹیں گے

جھیلنی پڑ جائیں گی کڑیاں
بکھریں گی موتی کی لڑیاں

دھاگے میں سوئی پرونے والو
آنکھیں ہوں تو ہوش سنبھالو

نور کی عینک ضعف بصر سے
چڑھ کے اُتر جائے گی نظر سے

کام نہ دے گا تار نظر بھی
دُہری ہو جائے گی کمر بھی

اُٹھنا ، بیٹھنا، پھرنا، چلنا
دروازے تک گھر سے نکلنا

مشکل ہوگا دوبھر ہوگا
گھر زنداں سے بدتر ہوگا

جھُریاں لیں گی بوسہء اعضا
ہاتھ ملائے گا آکر رعشا

لے کے عصا تسلیم کو آخر
ہوگا نقیب اجل بھی حاضر

لے جائے گا اُفتاں خیزاں
سوے منزل شہر خموشاں

راہ شفق ہے چار پہر کی
جلد خبر لو شام و سحر کی


(شفق عماد پوری)
 
Top