ظہیر کاشمیری شاہدہ ۔ از ظہیر کاشمیری

فرخ منظور

لائبریرین
شاہدہ

کسی سنولائی ہوئی شام کی تنہائی میں
دو سرکتے ہوئے سایوں میں ہوئی سرگوشی
بات چھوٹی تھی --- مگر پھیل کے افسانہ بنی

میں نے اکثر یہی سوچا --- ترا خوش رنگ بدن
نقرۂ ناب کا ترشا ہوا ٹکڑا ہو گا
دودھیا ۔۔۔۔۔ سرد ۔۔۔۔ حرارت سے تہی
جس پہ طاری ہو خود اپنے ہی تصور کا جمود
کوئی اعجازِ پرستش جسے چونکا نہ سکے

تو مگر پھول کی پتی سے سبک تر نکلی
اوس کے لمس سے جو آپ ہی جھک جاتی ہو
اک ہلورہ بھی جسے ٹھیس لگا سکتا ہو
تو مگر خوابِ محبت تھی فرشتوں نے جسے
بیٹھ کر چاند ستاروں میں بنا صدیوں تک
اپنے بلور کے ایوان سجانے کےلئے!

دمِ گفتار ۔۔۔ تیرے ہونٹوں سے رستی ہوئی بات
جیسے گیتوں کے بہاؤ میں مخاطب کو لئے
چھوڑ آئے کسی رومان بھری وادی میں
تیری شب تاب جوانی کی ضیا نے اکثر
ہالۂ نور مرے گرد کیا ہے تعمیر
اور میں حجلۂ تنویر میں پہروں بیٹھا
تیرے مانوس تنفس کی صدا سنتا رہا

ابھی کچھ اور بھی راتیں ہیں پسِ پردۂ غیب
ابھی کچھ اور بھی نغمے ہیں پسِ پردۂ ساز
کئی راتوں کئی نغموں سے گزرنا ہو گا
دیکھ ! وہ چاند کی چوٹی کا چمکتا مینار
اسی مینار میں دونوں کو پہنچنا ہوگا

(ظہیر کاشمیری)
 
Top