غزلِ
شفیق خلش
دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش
بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش
زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!
گرنہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش
کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا...
غزلِ
شفیق خلش
مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا
دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا
کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا
گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا...
محمداحسان الحق، احسان
پیچھےنہ کہَیں میرے، کہ تنگ آ کے مَرا تھا
کہتے ہیں مِرا باپ بھی کُچھ کھا کے مَرا تھا
تلوار کوئی سر سے بہت دُور تھی اُس کے
وہ مرنے کے ہی خوف سے گھبرا کے مَرا تھا
سب پیار سے رہنا، نہ کہ دِیوار اُٹھانا
بُوڑھا سبھی بچّوں کو یہ سمجھا کے مَرا تھا
میداں میں شہادت کو ترستا رہا...
غزل
حسن عباسی
تیری مشکل نہ بڑهاؤں گا چلا جاؤں گا
اشک آنکھوں میں چهپاؤں گا چلا جاؤں گا
اورگلیوں سے تو مجھ کو نہیں لینا کچھ بهی !
بس تمہیں دیکهنے آؤں گا چلا جاؤں گا
اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو
جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا
مدّتوں بعد میں آیا ہُوں پرانے گهر میں
خود کو جی بهر کے...
غزلِ
شفیق خلش
مجھ سے کیوں بدگُمان ہے پیارے
تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے
ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے
دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے
میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں
مہرباں آسمان ہے پیارے
کب اِشارہ ہو سب اُلٹنے کا
مُنتظر پاسبان ہے پیارے
کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی
اِک عجب داستان ہے پیارے
چور...
غزلِ
شفیق خلش
اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا
یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا
میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز
پُھولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا
اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا
کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک...
غزلِ
مِرزا اسداللہ خاں غالب
گھر، جب بنا لِیا تِرے در پر، کہے بغیر
جانے گا اب بھی تُو نہ مِرا گھر، کہے بغیر
کہتے ہیں، جب رہی نہ مجھے طاقتِ سُخن
'جانوں کسی کے دِل کی میں کیوں کر، کہے بغیر'
کام اُس سے آ پڑا ہے کہ، جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام، ستم گر کہے بغیر
جی میں ہی کچھ نہیں ہے...
غزل
شفیق خلش
جان ودِل ہجرمیں کُچھ کم نہیں بےجان رہے
لڑ کر اِک دردِ مُسلسل سے پریشان رہے
سوچ کر اور طبیعت میں یہ ہیجان رہے !
کیوں یُوں درپیش طلاطُم رہے، طوُفان رہے
بُت کی چاہت میں اگر ہم نہ مُسلمان رہے
رب سے بخشش کی بھی کیا کُچھ نہیں امکان رہے
مگراب دل میں کہاں میرے وہ ارمان رہے
ضُعف سے...
غزل
عزیز لکھنوی
بتاؤں کیا، کہ میرے دِل میں کیا ہے
سِوا تیرے، تِری محفِل میں کیا ہے
یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا
تُو ہی تُو ہے بھری محفِل میں کیا ہے
کسی کے بُجھتے دِل کی ہے نِشانی
چراغِ سرحدِ منزِل میں کیا ہے
بجُز نقشِ پشیمانیِ قاتِل !
نگاہِ حسرتِ بسمِل میں کیا ہے
جفاؤں کی بھی حد ہوتی...
غزل
شفیق خلش
میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا
ورنہ مِلنے کو کسی سے کب کہاں جاتا رہا
میں لبِ دم تھا غمِ فُرقت میں لاحق وہم سے
جی اُٹھا آنے پہ اُس کے، ہر گُماں جاتا رہا
وہ جو آئے جیسے آئیں زندگی کی رونقیں
'میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا'
شوق اب بھی جی کو ہیں لاحق وہی پہلے جو...
غزل
ثمینہ راجہ
چند گِلے بُھلا دئیے، چند سے درگُزر کِیا
قصۂ غم طوِیل تھا،جان کے مُختصر کِیا
جُھوٹ نہیں تھا عشق بھی، زِیست بھی تھی تجھے عزِیز
میں نے بھی اپنی عُمْر کو اپنے لئے بَسر کِیا
جیسے بھی تیرے خواب ہُوں، جو بھی تِرے سراب ہُوں
میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا
تیری نِگاہِ...
خزانہ
بارشیں یاد دِلائیں وہ زمانہ میرا
شِیٹ کی دھار کے پانی میں نہانا میرا
سُوکھے پتوں کی طرح تھی نہ کہانی میری
آئی مجھ پرکہ ابھی تھی نہ جوانی میری
دل، کہ محرومئ ثروت پہ بھی نا شاد نہ تھا
لب پہ خوشیوں کے تھے نغمے، کبھی فریاد نہ تھا
پُھول ہی پُھول نظر آتے تھے ویرانے میں
موجزن رنگِ بہاراں...
غزل
شفیق خلش
نہ دوست بن کے مِلے وہ ، نہ دشمنوں کی طرح
جُدا یہ ُدکھ بھی، مِلے اور سب دُکھوں کی طرح
یُوں اجنبی سی مُصیبت کبھی پڑی تو نہ تھی
سحر کی آس نہ جس میں وہ ظلمتوں کی طرح
نہ دل میں کام کی ہمّت، نہ اوج کی خواہش !
کٹے وہ حوصلے سارے مِرے پروں کی طرح
ستارے توڑ کے لانے کا کیا کہوں میں...
غزل
شفیق خلش
نہیں جو عِشق میں رُتبہ امین رکھتا تھا
میں اپنا دِل تک اُسی کا رہین رکھتا تھا
رہی جو فکر تو نادان دوست ہی سے مجھے
وگرنہ دشمنِ جاں تک ذہین رکھتا تھا
خیال جتنا بھی اُونچا لیے پھرا ، لیکن
میں اپنے پاؤں کے نیچے زمین رکھتا تھا
خُدا کا شُکر کہ عاجز کِیا نہ دل نے کبھی
میں اِس کو...
شفیق خلش
کچھ سفیدی نے سحرکی رنگ بھی پکڑا نہ تھا
رات کی اُس تِیرَگی کو بھی ابھی جکڑا نہ تھا
خواب میں تھے سب مکینِ وادئ جنّت نظیر
رات کے سب خواب تھے دن کا کوئی دُکھڑا نہ تھا
سحری کرکے پانی پی کے سو گئے تھے روزہ دار
وہ بھی حاصل جن کو روٹی کا کوئی ٹکڑا نہ تھا
حُسن فِطرت میں کہ تھے پالے...
شفیق خلش
کیسی یہ روشنی ہے بکھرتی نہیں کبھی
تاریک راستوں پہ تو پڑتی نہیں کبھی
کیسا یہ چھا گیا ہے مِری زندگی پہ زنگ
کوشش ہزار پہ بھی اُترتی نہیں کبھی
یکسانیت کا ہوگئی عنوان زندگی !
بگڑی ہے ایسی بات سنْورتی نہیں کبھی
رہتا ہے زندگی کو بہاروں کا اِنتظار
حرکاتِ کج رَواں سے تو ڈرتی نہیں کبھی
ہے...
غزل
شفیق خلش
دی خبر جب بھی اُنھیں اپنے وہاں آنے کی
راہیں مسدُود ہُوئیں میرے وہاں جانے کی
اور کُچھ پانے کی دِل کو نہیں خواہش کوئی
نِکلے بس راہ کوئی میرے وہاں جانے کی
وجہ کیا خاک بتائیں تمھیں کھُل کر اِس کی
کوئی تدبیر چلی ہی نہیں دِیوانے کی
میری قسمت میں کہاں یار سے جاکر مِلنا
کوشِشیں...
غزل
شفیق خلش
مناظر حَسِیں ہیں جو راہوں میں میری
تمہیں ڈھونڈتے ہیں وہ بانہوں میں میری
اِنہیں کیا خبر مجھ میں رَچ سے گئے ہو
بچھڑ کر بھی مجھ سے، ہو آہوں میں میری
عجب بیخُودی آپ ہی آپ چھائے
تِرا نام آئے جو آہوں میں میری
ہر اِک سُو ہے رونق خیالوں سے تیرے
ابھی بھی مہک تیری بانہوں میں میری...
غزل
شفیق خلش
مجھ سے آنکھیں لڑا رہا ہے کوئی
میرے دِل میں سما رہا ہی کوئی
ہے تِری طرح روز راہوں میں
مجھ سے تجھ کو چُھڑا رہا ہے کوئی
پھر ہُوئے ہیں قدم یہ من من کے
پاس اپنے بُلا رہا ہے کوئی
نِکلوں ہر راہ سے اُسی کی طرف
راستے وہ بتا رہا ہے کوئی
کیا نِکل جاؤں عہدِ ماضی سے !
یادِ بچپن دِلا...
غزل
شفیق خلش
بہت سے لوگ تھے باتیں جہاں ہماری تھیں
تمھارے وصف تھے رُسوائیاں ہماری تھیں
نہیں تھا کوئی بھی، دیتا جو ساتھ محفل میں
تمھاری یاد تھی، تنہائیاں ہماری تھیں
عجب تماشا تھا، ہرآنکھ کا وہ مرکز تھا
وجود اُس کا تھا، پرچھائیاں ہماری تھیں
تباہ ہو نہ سکے، یہ کمال تھا اپنا
تمھارے خواب تھے...