شفیق خلش شفیق خلش ::::: اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ

شفیق خلش

اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا
یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا

میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز
پُھولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا

اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا

کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک خوابِ خُوب رُوئے زمانہ نہیں گیا

مَدّھم سی ہوتی جاتی ہے آنکھوں کی روشنی
لیکن مِرا وہ خواب سجانا نہیں گیا

گرچہ الگ ہیں رنگ خِزاں اور بہار کے !
پھر بھی تو اِن رُتوں کا ستانا نہیں گیا

اِک کیفیّت سُرور کی ہے قُربِ حُسن سے
اب تک وہ عاشقی کا زمانہ نہیں گیا

کم وَلوَلے ہوں کیسے، کہ ہر دم ابھی اُسے
پیشِ نظر خیال میں پانا نہیں گیا

جو نقش دِل پہ تھے، وہ تو سارے اُتر گئے
نظروں سے اُس کا دِل میں سمانا نہیں گیا

یادوں سے مَحو ہوگئے ماضی کے سب خیال
اِک عکس اُس حَسِیں کا سُہانا نہیں گیا

چُھوٹے ہیں زندگی کے سبھی کام، پر خلش !
کُوچے میں اُس کے اب بھی وہ جانا نہیں گیا

شفیق خلش
 
Top