عبدالمجید سالک
چراغِ زندگی ہوگا فروزاں، ہم نہیں ہونگے
چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں، ہم نہیں ہونگے
جوانوں اب تمھارے ہاتھ میں تقدیرِ عالَم ہے
تمہی ہو گے فروغِ بزمِ اِمکاں، ہم نہیں ہونگے
جئیں گے وہ جو دیکھیں گے بہاریں زُلفِ جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دَوراں، ہم نہیں ہونگے
ہمارے ڈُوبنے...
غزلِ
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے...
غزلِ
شفیق خلِش
جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا
کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا
دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں
کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا
کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !
دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا
ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے
کُچھ عجب...
غزلِ
مُرتضیٰ برلاس
موج درموج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
پاؤں ڈالا تو یہ دریا لگا پایاب مجھے
شدّتِ کرب سے کُمھلا گئے چہرے کے خطوُط
اب نہ پہچان سکیں گے مِرے احباب مجھے
ایک سایہ، کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے
ایک آواز کہ ، کرتی رہے بیتاب مجھے
جس کی خواہش میں کسی بات کی خواہش نہ رہے
ایسی...
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
رونے سے اور عِشق میں بیباک ہوگئے
دھوئے گئے ہم اِتنے، کہ بس پاک ہوگئے
صرفِ بہائے مے ہُوئے آلاتِ میکشی !
تھے یہ ہی دو حِساب سو یُو ں پاک ہوگئے
رُسوائے دہر گو ہُوئے آوار گی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے
کہتا ہے کون نالۂ بُلبُل کو بے اثر
پردے میں گُل کے،...
غزلِ
اختر ہوشیارپوری
( پنڈت ہری چند اختر )
کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو
اِس رات کے سنّاٹے میں، کوئی تو صدا ہو
یُوں جسم مہکتا ہے ہَوائے گُلِ تر سے !
جیسے کوئی پہلوُ سے ابھی اُٹھ کے گیا ہو
دُنیا ہَمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو
کچھ اور قریب آؤ ، کوئی سُن نہ رہا ہو
یہ رنگ، یہ...
غزلِ
شفیق خلِش
گردشِ وقت میں کُچھ بھی نہ عجب بات ہُوئی
پو پَھٹے پر جو نہیں دُور مِری رات ہُوئی
طبْع پَل کو نہیں مائل بہ خرافات ہُوئی
گو کہ دِلچسپ اِسے کب نہ نئی بات ہُوئی
پاس رہتے ہُوئے یُوں ترکِ مُلاقات ہُوئی
ایک مُدّت سے کہاں ہم سے کوئی بات ہُوئی
سب ہی پُوچھیں کہ، بسرخوش تو تِرے سات...
غزلِ
شفیق خلش
جوشِ طلب میں حد سے گُزر جائیں کیا کریں
آتا نہیں وہ، ہم ہی اُدھر جائیں کیا کریں
مِلنے کی آس میں ہیں سمیٹےہُوئے وجُود
ایسا نہ ہو کہ ہم ہی بکھر جائیں کیا کریں
ہر سمت ہر گھڑی وہی یادوں کے سلسلے
الله! ہم سے سے لوگ کدھر جائیں کیا کریں
اور ایک رات اُس کی گلی میں گُزار دی
اب کون...
غزلِ
احمد فراز
وحشتِ دِل، طَلَبِ آبلہ پائی لے لے
مجھ سے یا رب! مِرے لفظوں کی کمائی لے لے
عقل ہر بار دِکھاتی تھی جلے ہاتھ اپنے
دل نے ہر بار کہا، آگ پرائی لے لے
میں تو اُس صُبحِ درَخشاں کو توَنگر جانُوں
جو مِرے شہر سے کشکولِ گدائی لے لے
تو غنی ہے مگر اِتنی ہیں شرائط تیری
وہ محبّت جو ہمَیں راس...
غزلِ
شفیق خلش
تِنکوں کا ڈُوبتوں کو سہارا بتائیں کیا
پیشِ نظر وہ روز نظارہ بتائیں کیا
جی کیوں اُٹھا ہے ہم سے کسی کا بتائیں کیا
پُوچھو نہ بار بار خُدارا بتائیں کیا
تڑپا کے رکھ دِیا ہمَیں دِیدار کے لئے
کیوں کر لِیا کسی نے کِنارا بتائیں کیا
روئے بہت ہیں باغ کے جُھولوں کو دیکھ کر
یاد آیا...
مِرزا یاس، یگانہ،چنگیزی
بخت بیدار اگر سِلسِلہ جُنباں ہو جائے
شام سے بڑھ کے سَحر دست و گریباں ہوجائے
پڑھ کے دو کلمے اگر کوئی مُسلماں ہوجائے
پھر تو حیوان بھی دو دن میں اِنساں ہو جائے
آگ میں ہو جسے جلنا تو وہ ہندُو بن جائے
خاک میں ہو جسے مِلنا وہ مُسلماں ہو جائے
دُشمن و دوست سے آباد...
غزلِ
احمد فراز
چند لمحوں کے لئے توُ نے مسیحائی کی
پھر وہی میں ہُوں، وہی عمر ہے تنہائی کی
کِس پہ گُزری نہ شب ہجر قیامت کی طرح
فرق اتنا ہے، کہ ہم نے سخن آرائی کی
اپنی بانہوں میں سِمٹ آئی ہے وہ قوسِ قزح
لوگ تصوِیر ہی کھینچا کیے انگڑائی کی
غیرتِ عِشق بَجا، طعنۂ یاراں تسلِیم
بات کرتے ہیں...
غزلِ
مِرزا یاس عظیم آبادی، یگانہ
ازل سے سخت جاں آمادۂ صد اِمتحاں آئے
عذابِ چند روزہ یا عذابِ جاوِداں آئے
کنْول روشن تو ہو دِل کا پیامِ ناگہاں آئے
بَلا سے شامتِ پروانۂ آتش بجاں آئے
قفس بردوش پھرتے ہیں خِزاں آبادِ عالم میں !
اسیرانِ ازل گھر چھوڑ جنگل میں کہاں آئے
بہارستانِ عبرت...
غزل
شفیق خلش
جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے
ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے
تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے
لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال...
احمد ندیم قاسمی
حیراں حیراں کونپل کونپل کیسے کِھلتے پُھول یہاں
تنے ہُوئے کانٹوں کے ڈر سے پُوجی گئی ببول یہاں
کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہُوئے
کاش یہ فصلِ خُونِ بہاراں اور نہ کھینچے طُول یہاں
شاید آج بھی جاری ہے آدم کا سلسلۂ اُفتاد
تھی نہ وہاں جنّت بھی گوارا اور قبوُل ہے...
بَشرطِ استواری
خُونِ جمہور میں بھیگے ہُوئے پرچم لے کر
مجھ سے افراد کی شاہی نے دُعا مانگی ہے
صُبح کے نُور پہ تعزِیز لگانے کے لیے
شب کی سنگِین سیاہی نے وَفا مانگی ہے
اور یہ چاہا ہے کہ میں قافلۂ آدم کو
ٹوکنے والی نِگاہوں کا مددگار بنُوں
جس تصوّر سے چراغاں ہے سرِ جادۂ زِیست
اُس تصوِیر کی...
مُلکِ خُدا داد
کب پَس و پیش ہے کرنے میں ہمیں کام خراب
دِل ہمارا نہ ہو مائل کہ ہو کچھ کارِ صواب
مال و زر ایک طرف، جان بھی لے لیتے ہیں
ڈر کہاں ہم میں، کہ دینا ہے خُدا کو تو جواب
خاک، منزل ہو معیّن بھی وہاں خیرکی جا !
قتل کرنے کی ڈگر ٹھہری جہاں راہِ ثواب
نفرتیں روز جہاں بُغض و عقائد سے...
شفیق خلش
پیار
ہمارا پیار نہ دِل سے کبھی بُھلا دینا
ہمیشہ جینے کا تم اِس سے حوصلہ دینا
بھٹک پڑوں یا کبھی راستہ نظر میں نہ ہو !
ستارہ بن کے مجھے راستہ دِکھا دینا
دیے تمام ہی یادوں کے ضُوفشاں کرکے
ہو تیرگی کبھی راہوں پہ تو مِٹا دینا
تم اپنے پیار کے روشن خوشی کے لمحوں سے
غموں سے بُجھتے...
غزلِ
احمر کاشی پوری
شہر سے دُور، جو ٹُوٹی ہُوئی تعمیریں ہیں !
اپنی رُوداد سُناتی ہُوئی تصویریں ہیں
میرے اشعار کو اشعار سمجھنے والو !
یہ مِرے خُون سے لِکھّی ہُوئی تحریریں ہیں
جانے کب تیز ہَوا کِس کو اُڑا کر لے جائے
ہم سبھی فرش پہ بِکھری ہُوئی تصویریں ہیں
ذہن آزاد ہے ہر قید سے اب بھی میرا...
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کرجائیں!
شفیق خلش
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں
اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھرجائیں
ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے
ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھرجائیں
دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی
اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کرجائیں
روشنی مُدام...