غزل
فراق گورکھپوری
سِتاروں سے اُلجھتا جا رہا ہُوں
شبِ فُرقت بہت گھبرا رہا ہُوں
تِرے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہُوں
جہاں کو بھی سمجھتا جارہا ہُوں
یقیں یہ ہے حقیقت کُھل رہی ہے
گُماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہُوں
اگر مُمکن ہو، لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حُسن کو میں آ رہا ہوں
حدیں حُسن و محبت کی مِلا...
غزل
شفیق خلش
پھر وہی گونج ہے باتوں کی بیاں سے باہر
پھر وہی تیغ ہے نظروں میں، مَیاں سے باہر
کیسا یہ درد سمایا ہے جگر میں میرے !
خود پہ کُھلتا نہیں، اُن کے بھی گُماں سے باہر
کبھی باہر تھی بیاں سے، تو تھی اُلفت اُن کی
اُن کی رنجش بھی ابھی ہے تو بیاں سے باہر
کاش ہوتے نہ جو اپنے، تو نِکلتا...
رفعت القاسمی
غزل
ہم جو اوروں سے بھی رکھتے ہیں شناسائی بہت
عِشق کی فِطرت میں ہے یہ بے سَر و پائی بہت
عُمر بھر زُلفِ بُتاں شانوں پہ لہراتی رہی
موسمِ گُل نے بھی کی، دِل کی پزیرائی بہت
پھر بہار آئی، گلوں نے پھر قدم چُومے تو کیا
خوار کر رکھتی ہے، اپنی آبلہ پائی بہت
سادہ و پُرکار، یہ ارض و...
باقر زیدی
غزل
ذکر اُس کا اگر پیکرِ اشعار میں آوے
کیا کیا نہ مزہ لذّتِ گُفتار میں آوے
مطلُوبِ نظر چشمِ طلبگار میں آوے
سُورج کی طرح رَوزن دِیوار میں آوے
رکھّا ہے قدم حضرتِ غالب کی زمیں پر
کُچھ اور بُلندی مِرے افکار میں آوے
سچ پُوچھو تو مجھ کو بھی وہی وجہ سکوں ہے
وہ چین، جو تجھ کو مِرے...
غزلِ
شفیق خلش
کرتے ہیں اگر مجھ سے وہ پیار تو آجائیں
پھر آ کے چلے جائیں ، اِک بار تو آ جائیں
ہے وقت یہ رُخصت کا، بخشش کا، تلافی کا
سمجھیں نہ جو، گر اِس کو بیکار تو آجائیں
اِک دِید کی خواہش پہ اٹکا ہے یہ دَم میرا
کم کرنا ہو میرا کچھ آزار تو آ جائیں
جاں دینے کو راضی ہُوں، اے پیکِ اجل لیکن...
غزلِ
شفیق خلش
اُس حُسن کے پیکر کو کچھ پیار بھی آجائے
ہونٹوں پہ محبّت کا اِقرار بھی آجائے
لبریز ہو چاہت سے پیمانۂ دِل اُس کا
ہونٹوں سے چَھلک کر کچھ اِظہار بھی آجائے
رُت آئی ہے برکھا کی، ہیں پُھول کِھلے دِل میں
کیا خُوب ہو ایسے میں دِلدار بھی آ جائے
کیا کیا نہ کِیا ہم نے، پُوری نہ...
غزلِ
شفیق خلش
وہ جو رُخ پہ رنگِ شباب تھا
تِرا حُسن تھا کہ گلاب تھا
نہ تھا یوں مگر مجھے یوں لگا
وہی جاں کا میری عذاب تھا
کہ شکستِ دل کا سبب بھی تو
وہی عشقِ خانہ خراب تھا
اُفقِ نظر پہ ہے آج تک
وہ جو چاند زیرِ نقاب تھا
مِری زندگی تھی کہ دُھوپ تھی
تِرا حُسن مثلِ سحاب تھا
بنا تیرے...
دو غزلہ
چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھّا نہ تھا
اک نظر میری نظر کو اِنقلاب اچھا نہ تھا
اِس تغیّر سے دلِ خانہ خراب اچھا نہ تھا
تیرا غیروں کی طرح مجھ سے حجاب اچھا نہ تھا
اِس سے گو مائل تھا دل تجھ پر خراب اچھا نہ تھا
کب نشہ آنکھوں کا تیری اے شراب اچھا نہ تھا
بیقراری اور بھی بڑھ کر ہُوئی...
غزلِ
شفیق خلش
ہزار سی بھی لوُں دامن، سِیا نہیں لگتا
جنُوں سے عِشق میں سودا کِیا نہیں لگتا
اِک امتحان سے گُذرا ہُوں، کیوں نہیں سمجھیں
یونہی نہیں میں ہر اِک کو جِیا نہیں لگتا
وہ اطمینان سے یُوں ہیں، کہ میں کسی کو بھی اب
خود اپنے آپ پہ تہمت لِیا نہیں لگتا
وقوعِ وصل پہ کہتے ہیں سب، کرُوں...
غزلِ
شفیق خلش
دوڑے آتے تھے مِرے پاس صدا سے پہلے
اب وہ شاید ہی، کبھی آئیں قضا سے پہلے
کوئی اور آ کے ہی بتلادے ہمیں حال اُن کا !
دردِ دل غم سا ہی ہو جائے سَوا سے پہلے
عادتیں ساری عِنایت کی بدل دیں اُس نے
اب تسلّی نہیں دیتے وہ سزا سے پہلے
روز و شب وہ بھی اذیّت میں ہُوئے ہیں شامِل
یادِ جاناں...
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
شفیق خلش
ہُوں کِرن سُورج کی پہلی، اور کبھی سایا ہُوں میں
کیسی کیسی صُورتوں میں وقت کی آیا ہُوں میں
قُربِ محبُوباں میں اپنی نارسائی کے سبب
گھیرکرساری اُداسی اپنے گھر لایا ہُوں میں
گو قرار آئے نہ میرے دل کو اُن سے رُوٹھ کر
جب کہ مِلنے سے اِسی...
غزلِ
شفیق خلش
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں
رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں
کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں
نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ...
غزلِ
شفیق خلش
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ انعام بھی تو ہو
دُشنام گو لبوں پہ خلش نام بھی تو ہو
عاشق ہو تم تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو
پتّھر برس رہے ہوں کہ، ہو موت منتظر
اُن کا، گلی...
غزل
شفیق خلش
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے ، تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ، ہمیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار...
غزل
شفیق خلش
کچھ اُس کے دل میں خُدا میری اعتنائی دے
نہیں تو مجھ کو جنُوں سے ہی آشنائی دے
چلے بھی آؤ کہ فرقت سے دل دُہائی دے
غمِ جہاں بھی نہ اِس غم سے کچھ رہائی دے
کبھی خیال، یوں لائے مِرے قریب تجھے !
ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تو سُنائی دے
کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب...
غزل
شفیق خلش
کیا تم سے کہیں چُپ رہنے دو
جو چاہیں کہیں وہ ، کہنے دو
دیوانہ سمجھ کر رہنے دو
اے چارہ گرو دُکھ سہنے دو
دن بھر تو رہے آنسو روکے
خلوت میں لڑی تو بہنے دو
سُونی سی لگے دُنیا دل کی
کچھ اور غموں کے گہنے دو
ہاں درد کے سارے زیور وہ
اب تک جو نہیں ہیں پہنے دو
دیوانگی اُن کی...
غزل
شفیق خلش
ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ
ہوتا ہے ترے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ
دل خود میں کسی طَور پنپنے نہیں دیتا
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ
گُزری ہے بڑی عمر اِسی حال میں ناصح
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا...
غزل
شفیق خلش
کہتے تھے ہراِک بات پہ مُجھ سے جو، وہی تو
چپ سادھ کے بیٹھے رہے جب دل کی کہی تو
ڈر یوں بھی رہے اُن کی، نہیں آج نہیں سے
دل میں ہی مِرے دل کی اگر بات رہی تو
مِلتی نہ محبت وہ الگ بات ہے، لیکن
پھیلاتے، تم اپنا کبھی دامانِ تہی تو
جائیں گے ضروراُن سے مُلاقات کو، پہلے
ہو دُور...
غزلِ
عنبرامروہوی
تیری نگاہِ ناز کی خاطر کِسی طرح
منزل سے آ مِلے ہیں مسافر کِسی طرح
اب اِس میں دین جائے، کہ ایمان و جان و دل
کرنا ہے مُجھ کو رام وہ کافر کِسی طرح
موسٰی کی طرح کام کریگا عصائے عِشق
آیا جو میرے ڈھب پہ وہ کافر کِسی طرح
شامِ ابد سے جس کو مِلا دے قبولِ عام
ہوسکتا ایسے...
انْبالہ ایک شہر تھا، سُنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہُوں اُسی لُٹے ہُوئے قریے کی روشنی
اے ساکنانِ خطۂ لاہور دیکھنا
لایا ہُوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی
ناصر کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جناب ناصر کاظمی صاحب کی 42 ویں برسی ہے۔
اِس موقع کی نسبت سے ،میں اُن کے دیوان سے اپنی ایک پسندیدہ غزل
آپ سب...