طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ
ہوتا ہے ترے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ
ہوتا ہے ترے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ
دل خود میں کسی طَور پنپنے نہیں دیتا
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ
گُزری ہے بڑی عمر اِسی حال میں ناصح
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا تہیّہ
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا تہیّہ
ہر شخص کئے بیٹھا ہے میری ہی مُصَمَّم
شیرازۂ ہستی کے بکھرنے کا تہیّہ
شیرازۂ ہستی کے بکھرنے کا تہیّہ
ہلکان ہوئے جاتے ہو کیوں چا رہ گرو تم
ہے زیست کا اُن سے ہی سنورنے کا تہیّہ
ہے زیست کا اُن سے ہی سنورنے کا تہیّہ
تاویل نئی، یا وہی بے وجہ کے خدشے
قائم رہے کب اُن کا نہ ڈرنے کا تہیّہ
قائم رہے کب اُن کا نہ ڈرنے کا تہیّہ
نالاں کریں احباب کو کب میرے ارادے
بس دل میں تِرے، میرا اُترنے کا تہیّہ
بس دل میں تِرے، میرا اُترنے کا تہیّہ
چاہوں کہ تِرے عشق میں ڈوبا رہُوں ایسا
تا عمر نہ ہو جس سے اُبھرنے کا تہیّہ
تا عمر نہ ہو جس سے اُبھرنے کا تہیّہ
حاصل رہی جس راہ خلش دید کی راحت
اب روز وہیں سے ہے گُزرنے کا تہیّہ
اب روز وہیں سے ہے گُزرنے کا تہیّہ
شفیق خلش
آخری تدوین: