شفیق خلش :::: ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ :::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
شفیق خلش

ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ

ہوتا ہے ترے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ

دل خود میں کسی طَور پنپنے نہیں دیتا
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ

گُزری ہے بڑی عمر اِسی حال میں ناصح
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا تہیّہ

ہر شخص کئے بیٹھا ہے میری ہی مُصَمَّم
شیرازۂ ہستی کے بکھرنے کا تہیّہ

ہلکان ہوئے جاتے ہو کیوں چا رہ گرو تم
ہے زیست کا اُن سے ہی سنورنے کا تہیّہ

تاویل نئی، یا وہی بے وجہ کے خدشے
قائم رہے کب اُن کا نہ ڈرنے کا تہیّہ

نالاں کریں احباب کو کب میرے ارادے
بس دل میں تِرے، میرا اُترنے کا تہیّہ

چاہوں کہ تِرے عشق میں ڈوبا رہُوں ایسا
تا عمر نہ ہو جس سے اُبھرنے کا تہیّہ

حاصل رہی جس راہ خلش دید کی راحت
اب روز وہیں سے ہے گُزرنے کا تہیّہ

شفیق خلش
 
آخری تدوین:
Top