شفیق خلش :::: کچھ اُس کے دل میں خُدا میری اعتنائی دے ::::

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلش


کچھ اُس کے دل میں خُدا میری اعتنائی دے
نہیں تو مجھ کو جنُوں سے ہی آشنائی دے

چلے بھی آؤ کہ فرقت سے دل دُہائی دے
غمِ جہاں بھی نہ اِس غم سے کچھ رہائی دے

کبھی خیال، یوں لائے مِرے قریب تجھے !
ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تو سُنائی دے

کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب
تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے

ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلو میں
کچھ اِس طرح ، کہ تنفس تِرا سُنائی دے

نسیمِ صُبح کے جھونکوں سے ہلتے پُھولوں میں
ہمیشہ تُو ہی خراماں مجھے دِکھائی دے

گُلوں کے پتّوں پہ بارش کے ننھے قطروں سے
ہمیشہ تیری ہی آہٹ مجھے سُنائی دے

درودریچے سے خوشبو لئے گھر آئی ہوا
یوں گنگنائے کہ آمد تِری سُجھائی دے

ہُوں منتظر میں کسی ایسے معجزے کا خلش
جو میرے خواب کو تعبیر تک رسائی دے

شفیق خلش
 
Top