فراق :::: سِتاروں سے اُلجھتا جا رہا ہُوں :::: Firaq Gorakhpuri

طارق شاہ

محفلین

غزل
فراق گورکھپوری

سِتاروں سے اُلجھتا جا رہا ہُوں
شبِ فُرقت بہت گھبرا رہا ہُوں

تِرے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہُوں
جہاں کو بھی سمجھتا جارہا ہُوں

یقیں یہ ہے حقیقت کُھل رہی ہے
گُماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہُوں

اگر مُمکن ہو، لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حُسن کو میں آ رہا ہوں

حدیں حُسن و محبت کی مِلا کر
قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہُوں

خبر ہے تجھ کو اے ضبطِ محبّت
تیرے ہاتھوں میں لُٹتا جا رہا ہُوں

اثر بھی لے رہا ہُوں تیری چُپ کا
تجھے قائِل بھی کرتا جا رہا ہُوں

بھرَم تیرے سِتم کا کُھل چُکا ہے
میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں

اِنہیں میں راز ہیں گلباریوں کے
میں جو چنگاریاں برسا رہا ہُوں

جو اِن معصُوم آنکھوں نے دِئے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہُوں

تِرے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسُوس
کہ تجھ سے دُور ہوتا جا رہا ہے ہُوں

حدِ جور و کرم سے بڑھ چلا حُسن
نگاہِ یار کو یاد آ رہا ہُوں

جو اُلجھی تھی کبھی آدم کے ہا تھوں
وہ گتھی آج تک سُلجھا رہا ہُوں

محبّت اب محبّت ہو چلی ہے
تجھے کچھ بُھولتا سا جا رہا ہُوں

اجل بھی جن کو سُن کر جُھومتی ہے
وہ نغمے زندگی کے گارہا ہُوں

یہ سنّاٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ
فراق اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہُوں

فراق گورکھپوری
 
آخری تدوین:
Top