غزلِ
حکیم مومِن خاں مومِن
سم کھا موئے تو دردِ دلِ زار کم ہُوا
بارے کچھ اِس دَوا سے تو آزار کم ہُوا
کُچھ اپنے ہی نصِیب کی خُوبی تھی، بعد مرگ !
ہنگامۂ محبّتِ اغیار کم ہُوا
معشُوق سے بھی ہم نے نِبھائی برابری
واں لُطف کم ہُوا، تو یہاں پیار کم ہُوا
آئے غزال چشم سدا میرے دام میں !
صیّاد ہی رہا...
فہمیدہ ریاض
چار سُو ہے بڑی وحشت کا سماں
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثِیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوُق جو بستی ہے یہاں
جس پہ اِنساں کا گُزرتا ہے گمُاں
خود تو ساکت ہے مثالِ تصوِیر
جنْبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جُز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جُز بے دِل و جاں...
غزلِ
خواجہ حیدرعلی آتش
ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح
نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح
کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح
بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح
کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر
فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح
وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !
ورُود غم...
غزلِ
پروین شاکر
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی
اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو
وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پر تجھ سے...
غزلِ
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی...
غزل
شفیق خلش
اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
غزلِ
اعتبارساجد
پُھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خِرَد مند بنے پھرتے تھے ماشاء اللہ !
بس تِرے شہر میں اِک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کِس کے وفُورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تِرے مُجرمِ شُہرت ہم تھے
رَتجگوں میں تِری یاد آئی تو احساس ہُوا...
غزلِ
مجیب خیرآبادی
زِیست آوارہ سہی زُلفِ پریشاں کی طرح
دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح
تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح
زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح
تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور...
غزلِ
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر...
غزلِ
شفیق خلش
وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس...
غزلِ
جوش ملسیانی
بَلا سے کوئی ہاتھ مَلتا رہے !
تِرا حُسن سانْچے میں ڈھلتا رہے
ہر اِک دِل میں چمکے محبّت کا داغ
یہ سِکّہ زمانے میں چلتا رہے
ہو ہمدرد کیا، جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلوُ نِکلتا رہے
بَدل جائے خُود بھی، تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے
مِری بے قراری پہ کہتے ہیں...
داغ دہلوی
ہم تو نالے بھی کِیا کرتے ہیں آہوں کے سِوا
آپ کے پاس ہیں کیا؟ تیز نِگاہوں کے سِوا
معذرت چاہیے کیا جُرمِ وَفا کی اُس سے
کہ گُنہ عُذر بھی ہے، اور گُناہوں کے سِوا
میں نہیں کاتبِ اعمال کا قائل، یا رب !
اور بھی کوئی ہے اِن دونوں گواہوں کے سِوا
حضرتِ خِضر کریں دشت نوَردی بیکار !
ہم...
غزل
اُمید فاضلی
اے دلِ خوُد ناشناس ایسا بھی کیا
آئینہ اور اِس قدر تنہا بھی کیا
اُس کو دیکھا بھی، مگر دیکھا بھی کیا
عرصۂ خواہش میں اِک لمحہ بھی کیا
درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا
کھینچتی ہے عقل جب کوئی حصار
دُھوپ کہتی ہے کہ یہ سایہ بھی کیا
پُوچھتا ہے...
شفیق خلش
راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا
آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا
اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی
جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا
بھیجا ہے میری بُھوک نے مجھ کو وطن سے دُور
مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا
سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں
خوشیوں میں غم...
غزلِ
صہبا اختر
عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا !
بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا
وہ خرابہ ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی
وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا
کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار
میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا
ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے...
بغداد
دُکھ ہیں کہ موجزن ہیں دلِ داغدار میں
مصرُوف پھر بھی ہیں ہَمہ تن روزگار میں
یہ آگ کی تپش، یہ دُھواں اور سیلِ خُوں
گولے برس رہے دمادم دیار میں
بغداد جل رہا ہے مگر سو رہے ہیں ہم
آتے ہیں نام ذہن میں کیا کیا شُمار میں
ہر پُھول سرخ ہے سرِ شاخِ شجر یہاں
ٹُوٹا ہے ایک حشر ہی اب کے بہار میں...
غزلِ
شفیق خلش
" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے
نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے
کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے
زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل...
غزل
احمد فراز
سُنا تو ہے کہ نگارِ بہار راہ میں ہے
سفر بخیر کہ دشمن ہزار راہ میں ہے
گزر بھی جا غمِ جان و غمِ جہاں سے، کہ یہ
وہ منزلیں ہیں کہ جن کا شمار راہ میں ہے
تمیزِ رہبر و رہزن ابھی نہیں مُمکن
ذرا ٹھہر کہ بَلا کا غُبار راہ میں ہے
گروہِ کجکلہاں کو کوئی خبر تو کرے
ابھی ہجوم سرِ رہگزار راہ...