طارق شاہ
محفلین
غزلِ
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر کی فرُصت نہ دی
دُوسری برپا ہُوئی، جب اِک قیامت ہوچُکی
ہم بدل جائیں گے کیا، قسمت بدل جائے گی کیا ؟
جب نہ دُنیا میں ہُوئی عقبٰی میں راحت ہوچُکی
ہم سے دِیوانوں سے کترا کر چلے ناصح نہ کیوں
جانتا ہے وہ کہ ، ایسوں کو نصِیحت ہو چُکی
اِس زمِیں میں شعر کہنے کا مزا پاؤ گے، داغ
اب تو جو ہونی تھی، اے حضرت سلامت ہوچُکی
داغ دہلوی
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر کی فرُصت نہ دی
دُوسری برپا ہُوئی، جب اِک قیامت ہوچُکی
ہم بدل جائیں گے کیا، قسمت بدل جائے گی کیا ؟
جب نہ دُنیا میں ہُوئی عقبٰی میں راحت ہوچُکی
ہم سے دِیوانوں سے کترا کر چلے ناصح نہ کیوں
جانتا ہے وہ کہ ، ایسوں کو نصِیحت ہو چُکی
اِس زمِیں میں شعر کہنے کا مزا پاؤ گے، داغ
اب تو جو ہونی تھی، اے حضرت سلامت ہوچُکی
داغ دہلوی