مُلّا اوراردو شاعری ( تحریر : محمد شمشیر )
جب مستی و سرورکی حالت میں صوفیا کی زبان سے خلافِ شرع الفاظ نکل جاتے ہیں یا دانستہ مذہب کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا ہے ، اسے صوفیانہ اصطلاح میں ’’ شطحیات ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی طرح شاعری میں روایت ہے کہ مُلّا ، شیخ ، واعظ اور زاہد پر لعن طعن کی جاتی ہے ، اسے...
ایک آنکھ میں حیا تو شرارت ہے ایک میں
یہ شرم ہے غضب کی وہ شوخی بلا کی ہے
بعدِ فنا بھی چین نہیں مشتِ خاک کو
گویا بنی ہوئی مری مٹی ہوا کی ہے
کوئی یقین کیوں نہ کرے اُن کے قول کا
ہر بات میں قسم ہے، قسم بھی خدا کی ہے
اے پیرِ مے کدہ نہیں نشہ شراب میں
کھینچی ہوئی مگر یہ کسی پارسا کی ہے
وہ وقتِ نزع...
داغؔ کے کلام میں حمد و نعت
از: ڈاکٹر داؤد رہبر
بوسٹن یونیورسٹی میں میری کلاسوں میں بیسیوں ایرانی شامل رہے۔ ان سے مجھے معلوم ہواکہ ایران میں تازہ انقلاب ہواتو آیت اللہ امام خمینی کی رہنمائی سے قوم کے بیشتر لوگوں نے شیخ سعدی کوتو بخش دیا، لیکن خواجہ حافظؔ کے مردود ہونے کی منادی ہوئی۔ مجتہدوں کی...
سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا
طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں تا حشر اُن کے آنے کا
چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا
وہ عذرِ جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کے کھانے کا
بہ تنگ آکے جو کی میں...
طَور بے طَور ہوئے جاتے ہیں
وہ تو کچھ اور ہوئے جاتے ہیں
یہ عنایت پہ عنایت ہے ستم
لطف بھی جور ہوئے جاتے ہیں
اب تو بیمارِ محبت تیرے
قابلِ غور ہوئے جاتے ہیں
نشہ ہوتا ہی نہیں اے ساقی
بے مزہ دَور ہوئے جاتے ہیں
دیر ہے حکم کی ہم تم پہ فدا
ابھی فی الفور ہوئے جاتے ہیں
التجا بھی ہے شکایت گویا
وہ خفا...
نہ تھی تاب اے دل تو کیوں چاہ کی
بڑا تیر مارا اگر آہ کی
وہی ایک ہے خاکِ دیر و حرم
دل اِس راہ کی لے یا اُس راہ کی
خدا جانے کیا بن گئی دل پہ آج
صدا ہے جو اللہ اللہ کی
اُڑاتے ہو بے پر کی تعریف میں
بندھی ہے ہوا کس ہوا خواہ کی
وہ پیغام رخصت کا منہ پھیر کر
وہ شرمیلی آنکھیں سحر گاہ کی
اُجاڑے ہیں...
جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
کھُلتے نہیں ہیں راز جو سوزِ نہاں کے ہیں
کیا پھوٹنے کے واسطے چھالے زباں کے ہیں
کرتے ہیں قتل وہ طلبِ مغفرت کے بعد
جو تھے دعا کے ہاتھ وہی امتحاں کے ہیں
جس روز کچھ شریک ہوئی میری مشتِ خاک
اس روز سے زمیں پہ ستم...
لے کے دل وہ چھیڑ سے کچھ کہہ گیا
دیکھتے کا دیکھتا میں رہ گیا
میں نہ کہتا تھا کہ دل لے لو مرا
عاقبت وہ خون ہو کر بہہ گیا
چاند سے چہرے پہ کیوں ڈالی نقاب
چاند یہ کیساگہن میں گہہ گیا
اس قدر گردش میں تھا میرا غبار
ساتھ پھر کر آسماں رہ رہ گیا
گالیاں بھی جھڑکیاں بھی تم نے دیں
اور دینے کے لیے کیا رہ...
طرزِ قدسی میں کبھی ،شیوۂ انساں میں کبھی
ہم بھی اک چیز تھے اس عالمِ امکاں میں کبھی
رنج میں رنج کا راحت میں ہوں راحت کا شریک
خاکِ ساحل میں کبھی موج ہوں طوفاں میں کبھی
دل میں بے لطف رہی خارِ تمنا کی خلش
نوک بن کر نہ رہا یہ کسی مژگاں میں کبھی
دم مرا لے کے ستم گار کرے گا تو کیا
یہ رہے گا نہ...
یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا
بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھُوٹا
دل اُس کے گیسوئے پُر پیچ و تاب سے چھُوٹا
بڑی بلا سے یہ نکلا عذاب سے چھُوٹا
نگاہِ مست نے سر شار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھُٹی میں شراب سے چھُوٹا
وہ تانک جھانک کا اول سے تھا مجھے لپکا
کہ آج تک بھی نہ عہدِ شباب سے چھُوٹا...
نہیں ہوتی بندے سے طاعت زیادہ
بس اب خانہ آباد، دولت زیادہ
محبت میں سو لطف دیکھے ہیں لیکن
مزا دے گئی ہے شکایت زیادہ
مریضِ محبت کی اچھی دوا کی
اسے کل سے ہے آج غفلت زیادہ
وہ تشریف لاتے ہی بولے کہ رخصت
نہیں ہم کو ملنے کی فرصت زیادہ
الٰہی زمانے کو کیا ہوگیا ہے
محبت تو کم ہے عداوت زیادہ
عدم سے سب...
کس نے کہا کہ داغِ وفا دار مر گیا
وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا
دامِ بلائے عشق کی وہ کشمکش رہی
ایک اک پھڑک پھڑک کے گرفتار مر گیا
آنکھیں کھلی ہوئیں ہیں پسِ مرگ اس لئے
جانے کوئی کہ طالبِ دیدار مر گیا
جس سے کیا ہے آپ نے اقرار جی گیا
جس نے سنا ہے آپ سے انکار مر گیا
کس بیکسی سے داغ نے...
یوں مصور یار کی تصویر کھینچ
کچھ ادا، کچھ ناز، کچھ تقریر کھینچ
کیوں کھٹکتا ہے عبث اے خارِ عشق
یا نکل یا دامنِ تاثیر کھینچ
ہو چکا سفاک عذرِ نازکی
تو کماں کی طرح دل سے تیر کھینچ
دامنِ یوسف اگر کھینچا تو کیا
اے زلیخا دامنِ تاثیر کھینچ
داغؔ کو تو نیم بسمل چھوڑ دے
دل سے اے سفاک آدھا تیر کھینچداغؔ...
عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو
یہ تو سب کچھ ہو مگر خواہشِ تقدیر بھی ہو
کاش تجھ سے ہی مقابل تری تصویر بھی ہو
دعویِٰ ناز بھی ہو شوخیِ تحریر بھی ہو
جعل سازوں نے بنایا ہے شکایت نامہ
کیوں خفا آپ ہوئے یہ مری تحریر بھی ہو
طمعِ زر ہی سے انسان کی مٹی ہے خراب
خاک میں ہم تو ملا دیں اگر اکسیر بھی...
وہ جلوہ تو ایسا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا
آنکھوں کو مگر دید کا لپکا نہیں جاتا
کیا خاک کروں ان سے تغافل کی شکایت
یہ حال ہی ایسا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا
آغوش میں لوں پاؤں پڑوں کھینچ لوں دامن
ہاتھ آئے جو تجھ سا اسے چھوڑا نہیں جاتا
کیا جانے کوئی اور وہ کیا ہے وہی جانے
سمجھا نہیں جاتا اسے جانا نہیں جاتا...
پردۂ عرفاں نہیں ہے چاک کیا
چشمِ بینا کے لیے ادراک کیا
نور سے خالی نہیں ہے خاکداں
کوئی بے ذرہ ہے اپنی خاک کیا؟
ساقی و میخانہ و مے ایک ہے
ہم نہ سمجھے پاک کیا ناپاک کیا
صیدِ دل کے واسطے ہے دامِ عشق
جب نہ ہو نخچیر تو فتراک کیا
صیقلِ آئینۂ عرفاں بنا
کون جانے ہے یہ مشتِ خاک کیا
موت سے غافل نہ...
بُرا ہے شاد کو ناشاد کرنا
سمجھ کر، سوچ کر بیداد کرنا
نہیں آتا ہمیں برباد کرنا
یہ پھر کہنا، یہ پھر ارشاد کرنا
عدو کے غم میں یوں فریاد ہر وقت
بھلا دوں گا تجھے میں یاد کرنا
مرے صیاد کو اک کھیل ٹھہرا
پھنسا کر دام میں آزاد کرنا
جو آنکھوں میں ہے، دل میں ہو وہی نور
الٰہی دونوں گھر آباد کرنا
رہے...
دم نہیں، دل نہیں، دماغ نہیں
کوئی دیکھے تو اب وہ داغ نہیں
گر قناعت نہیں ہے انساں کو
کبھی حاصل اسے فراغ نہیں
ایسے ویرانے میں وہ کیوں آئیں
خانۂ دل ہے خانہ، باغ نہیں
بات کرنی تو بار ہے تم کو
بات سننے کا بھی دماغ نہیں
تھی زمانے میں روشنی جس کی
ہائے اس گھر میں اب چراغ نہیں
مست کر دے نگاہ سے ساقی...
بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض
کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض
کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض
لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض
جو...
ذوق کی مشہور زمانہ زمین "اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا۔۔۔ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی" میں داغ دہلوی کی ایک غزل:
یاد رہے کہ اس زمین میں فراز کی ایک بہت خوبصورت غزل "قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی" بھی موجود ہے۔
کیا بھیڑ مے کدے کے ہے در پر لگی ہوئی
پیاسو! سبیل ہے سرِ کوثر لگی...