داغ لے کے دل وہ چھیڑ سے کچھ کہہ گیا ۔ دا غ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
لے کے دل وہ چھیڑ سے کچھ کہہ گیا
دیکھتے کا دیکھتا میں رہ گیا

میں نہ کہتا تھا کہ دل لے لو مرا
عاقبت وہ خون ہو کر بہہ گیا

چاند سے چہرے پہ کیوں ڈالی نقاب
چاند یہ کیساگہن میں گہہ گیا

اس قدر گردش میں تھا میرا غبار
ساتھ پھر کر آسماں رہ رہ گیا

گالیاں بھی جھڑکیاں بھی تم نے دیں
اور دینے کے لیے کیا رہ گیا

مجھ کوجو سننا تھا میں نے سن لیا
اُس کو جو کہنا تھا منہ پر کہہ گیا

ہائے میری خستگی و ماندگی
چل دیا سب قافلہ میں رہ گیا

اور ناصح کو کڑی میں نے کہی
ایک جب چبھتی ہوئی وہ سہہ گیا

جب سے وہ رہنے لگے ہیں بے نقاب
روزوشب کا نورِ مہر و مہ گیا

عاشقوں سے عشق چھپتا ہے کہیں
پھوٹ کر جب روئے، دریا بہہ گیا

داغؔ سے اُٹھا نہ اک رشکِ رقیب
جو ستم سہنے کے تھے وہ سہہ گیا

(داغؔ دہلوی)
 
Top