داغ سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا

عاطف ملک

محفلین
سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا
اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا

طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا
کہ منتظر رہوں‌ تا حشر اُن کے آنے کا

چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا

وہ عذرِ جرم کو بدتر گناہ سے سمجھے
کوئی محل نہ رہا اب قسم کے کھانے کا

بہ تنگ آکے جو کی میں نے ترک رسمِ وفا
ہر اک سے کہتے ہیں یہ حال ہے زمانے کا

جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر یہ نہیں میرے ہاتھ آنے کا

نہ سوچے ہم کہ تہ تیغ ہوگی خلق اللہ
گھٹا نہ حوصلہ قاتل کے دل بڑھانے کا

اثر ہے اب کے مئے تند میں وہ اے زاہد
کہ نقشہ تک بھی نہ اترے شراب خانے کا

سمائیں اپنی نگاہوں میں ایسے ویسے کیا
رقیب ہی سہی ہو آدمی ٹھکانے کا

لگی ہے چاٹ مجھے تلخیِ محبت کی
علاج زہر سے مشکل ہے زہر کھانے کا

تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ
نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا

لگی ٹھکانے سے بلبل کی خانہ بربادی
چراغِ گل میں بھی تنکا ہے آشیانے کا

خطا معاف، تم اے داغؔ اور خواہشِ وصل
قصور ہے یہ فقط ان کے منہ لگانے کا

داغؔ دہلوی
(کلیاتِ داغ)
ٹیگ نامہ:
الف عین
محمد وارث
ظہیراحمدظہیر
محمد تابش صدیقی

(نوٹ:میرے پاس ای بک میں جو غزل موجود ہے، اس میں اپنے اندازے سے کچھ ردو بدل کیا ہے۔اس لیے آپ حضرات کو ٹیگ کیا ہے کہ تصیح کی جا سکے۔)
 
Top