داغ غزل: نہیں ہوتی بندے سے طاعت زیادہ

نہیں ہوتی بندے سے طاعت زیادہ
بس اب خانہ آباد، دولت زیادہ

محبت میں سو لطف دیکھے ہیں لیکن
مزا دے گئی ہے شکایت زیادہ

مریضِ محبت کی اچھی دوا کی
اسے کل سے ہے آج غفلت زیادہ

وہ تشریف لاتے ہی بولے کہ رخصت
نہیں ہم کو ملنے کی فرصت زیادہ

الٰہی زمانے کو کیا ہوگیا ہے
محبت تو کم ہے عداوت زیادہ

عدم سے سب آتے ہیں یاں چار دن کو
نہیں ہوتی منظور رخصت زیادہ

بنے حوضِ مے، صحنِ مے خانہ بھر کر
زیادہ برس ابرِ رحمت زیادہ

تم آئینہ دیکھو تو ہم بھی یہ دیکھیں
کہ ہے کونسا خوبصورت زیادہ

مری بندگی سے مرے جرم افزوں
ترے قہر سے تیری رحمت زیادہ

حیا اس کی آنکھوں میں کیونکر ہو یارب
کہ شوخی سے بھی ہے شرارت زیادہ

بہکتے نہ تھے داغؔ یوں گفتگو میں
مگر پی گئے آج حضرت زیادہ

٭٭٭
داغؔ دہلوی
 
Top