سین خے
محفلین
مُلّا اوراردو شاعری ( تحریر : محمد شمشیر )
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی کتاب ’’ دو اسلام ‘‘ میں مُلّا کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :
’’ مُلّا سے مراد متعصب ، تنگ نظر ، کم علم اور کوتاہ اندیش واعظ اور امام مسجد ہے ‘‘
جماعت ا لمسلمین کے رہنما مسعود احمد نے اپنی کتاب ’’ تفہیم الاسلام ‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب کا محققانہ جواب لکھا ہے اور سچ پوچھے تو برق صاحب کو لاجواب کردیا ہے ۔ مسعود صاحب اپنی کتاب میں برق صاحب کی مندرجہ بالا تعریف کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ ہم بھی اس کتاب میں لفظ مُلّا کو انہی معنوں میں استعمال کریں گے جن معنوں میں ڈاکٹر صاحب نے استعمال کیا ہے ‘‘
اقبال نے بھی مُلّا کو ’’ کم نگاہ و کورذوق و ہرزہ گرد ‘‘ کہا ہے ۔
ان تعریفوں کے حوالے سے اظہار خیال آگے آتا ہے ، پہلے اقبال کے کلام کی طرف چلتے ہیں ۔
اقبال ’’ ضربِ کلیم ‘‘ کی نظم ’’ توحید ‘‘ میں کہتے ہیں :
آہ اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
’’ ضرب کلیم ‘‘ کی نظم ’’ غلاموں کی نماز ‘‘ میں پیش اماموں کے طویل سجدوں پر اس طرح معترض ہیں :وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
طویل سجدہ اگر ہے تو کیا تعجب ہے
ورائے سجدہ غریبوں کو اور ہے کیا کام
ورائے سجدہ غریبوں کو اور ہے کیا کام
’’ ضرب کلیم ‘‘ کی نظم ’’مستی کردار ‘‘ میں لکھتے ہیں :
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
مُلّا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
مُلّا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
’’ ضرب کلیم ‘‘ کی نظم ’’ مہدی برحق ‘‘ سے ایک شعر :
پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدتِ گفتار ہے نے جدتِ کردار
نظم ’’ مُلّا اور بہشت ‘‘ ملاحظہ ہو :نے جدتِ گفتار ہے نے جدتِ کردار
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے الٰہی میری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب ولبِ کِشت
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنِشت
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے الٰہی میری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب ولبِ کِشت
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنِشت
’’ بال جبریل ‘‘ کی ایک غزل سے ایک شعر :
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں مُلّا ہو غازی
جس معرکے میں مُلّا ہو غازی
بال جبریل سے ایک اور شعر :
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی
’’ ارمغان حجاز ‘‘ سے ایک شعر :
ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب
’’ بانگِ درا ‘‘ سے ایک شعر :
امیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہے
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہے
’’ بانگ درا ‘‘ سے :
عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
ایک شعر اور :
کرے گی داورِ محشر کو شرمسار اک روز
کتابِ صوفی و مُلّا کی سادہ اوراقی
کتابِ صوفی و مُلّا کی سادہ اوراقی
مشہور نقاد اور اقبال شناس خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں :
’’ اقبال نے سچ کہا تھا کہ چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعاروں میں ، لیکن مُلّا پر اس نے بے استعارہ اور بے نقط تبرّا بھی کیا ہے ۔ اس پر بھی ملا ناراض نہیں ہوئے ۔ یہ شاعری کا معجزہ ہے یا اقبال کی کرامات ۔ لیکن اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مُلّا جو ملائیت کی سیرت وکردار کے اس خاکے کو پڑھتا ہے، وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ دوسرے ملاؤں کی نسبت ہے اور دوسرے ملا ایسے ہی ہوتے ہیں ، میں بفضلہ ایسا نہیں ہوں ‘‘
میرے خیال میں اقبال نےعام سیدھے سادے ملاؤں کے مقابلے میں علما اور مفتیوں کی زیادہ طعن وتشنیع کی ہے مگر یہ لوگ سمجھتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں کہ اقبال نے ان پر نہیں بلکہ عام جاہل ملاؤں پر تنقید کی ہے ۔ اوپر کی گئ تعریفیں میرے خیال میں اس لیے وضع کی گئ ہیں کہ ملا اور عالم کے درمیان فرق پیدا کیا جاسکے ۔ ایک عام ملا اوردوسرے عام شخص کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یہ توزر خرید مفتی ہوتے ہیں جو ملوکیت کے آلہ کار بنتے ہیں اور جن کے فتاویٰ جابر حکمران اہلِ حق کو روندنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اس نوع کے مفتیوں کے بارے میں مصطفیٰ زیدی لکھتے ہیں :
حیات کے لیے بنیاد ہے نمودِ خیال
تجھے خبر نہیں انسان کیسے جیتا ہے
تیری غذا میں شہیدوں کا خون شامل ہے
ترا وجود تعفن کا دودھ پیتا ہے
درندگی کے مقدر پہ ناچنے والے
درندگی کا مقدر بدلتا رہتا ہے
تجھے خبر نہیں انسان کیسے جیتا ہے
تیری غذا میں شہیدوں کا خون شامل ہے
ترا وجود تعفن کا دودھ پیتا ہے
درندگی کے مقدر پہ ناچنے والے
درندگی کا مقدر بدلتا رہتا ہے
اس کے علاوہ اس طرح کے علما نے دین کے اندر نفرت کی بنیاد پر بے شمار فرقے بناتے ہیں، دوسروں کو کافر قرار دیکر بہشت صرف اپنے لیے مختص خیال کرتے ہیں جبکہ اقبال کا عقیدہ ہے کہ بہشت پر تمام اچھے انسانوں کا حق ہے ۔ اسی لیے انہوں نے ’’جاوید نامہ ‘‘ میں نیطشے ، وشوامتر، راجہ بھر تری ہری اور طاہرہ بابیہ جیسے غیر مسلموں کو اطرافِ بہشت میں دکھایا ہے ۔
اقبال کے مزید دو شعر پیش کرتا ہوں اور اقبا ل کا تذکرہ سمیٹتاہوں ۔ ارمغان حجاز کی نظم ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ میں ابلیس کا پہلا مشیر کہتا ہے :
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مُلّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
’’ بال جبریل ‘‘ سے ایک شعر :صوفی و مُلّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پاژند
تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پاژند
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
میرتقی میرنے شیخ کا لفظ بہت زیادہ استعمال کیا ہے اور اس کی تضحیک کی روایت کو نبھایا ہے ۔ یہ لفظ اردو شاعری میں قول و فعل میں تضاد کی علامت بن گیا ہے ۔ میر کے چھے غزلیہ دیوان ہیں ، میں صرف ان کے دیوانِ اول سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں :
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا ، رات کو تھا میخانے میں
جُبہ، حرقہ، کُرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا
جُبہ، حرقہ، کُرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہلِ دیں
گر آوے شیخ پہن کر جامہ قرآن کا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان
جس پہ شب احتلام ہوتا ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عجب شیخ جی کی ہے شکل وشمائل
ملےگا تو صورت سے بیزار ہوگا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ کی تو نماز پر مت جا
بوجھ سر کا سا ڈال آتا ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کچھ کم نہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار
دارو پلاکے شیخ کو آدم سے خر کیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بن عصا شیخ یک قدم نہ رکھے
راہ چلتا نہیں یہ خر بے چوب
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دلِ بے رحم گیا شیخ لیے زیرِ زمیں
مرگیا پر یہ کہن گبر مسلماں نہ ہوا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سودا کا شمار اردو کے بڑے کلاسیکی شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کا ایک شعر :گر آوے شیخ پہن کر جامہ قرآن کا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان
جس پہ شب احتلام ہوتا ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عجب شیخ جی کی ہے شکل وشمائل
ملےگا تو صورت سے بیزار ہوگا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ کی تو نماز پر مت جا
بوجھ سر کا سا ڈال آتا ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کچھ کم نہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار
دارو پلاکے شیخ کو آدم سے خر کیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بن عصا شیخ یک قدم نہ رکھے
راہ چلتا نہیں یہ خر بے چوب
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دلِ بے رحم گیا شیخ لیے زیرِ زمیں
مرگیا پر یہ کہن گبر مسلماں نہ ہوا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
سودا کا ایک اور شعر :سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
ناصح تو آدمی ہو تو میں مانوں تیری بات
حشرات کی طرح سے زمیں کا بخار ہے
حشرات کی طرح سے زمیں کا بخار ہے
سودا کی ایک قطعہ بند غزل :
رہے وہ معنیِ قرآں ، کہے جو تو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے ، کر رفو واعظ
مجھے یہ فکر ہے تُو اپنے ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ
خدا کے واسطے چُپ رہ ، اتر تُو ممبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ تُو بے وضو واعظ
سنا کسی سے تُو نامِ بہشت ، پرتجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ
بتوں کی حسن پرستی سے کیا خلل دیں میں
خدا نے دوست رکھا ہے رخِ نکو واعظ
ثبوتِ حق کی کریمی سبھوں پہ ہے لیکن
تری تو نفیِ کرم پر ہے گفتگو واعظ
ڈروں ہوں میں نہ کریں رند تیری ڈاڑھی کو
تبرکات میں داخل ہر ایک مو واعظ
ہزار شیشہء مے اس میں تُو چھپایا ہے
تری جو پگڑی ہے یہ صورتِ سبو واعظ
سخن وہ ہے کہ موثر دلوں کا ہو ناداں
یہ پوچ گوئی ہے جس سے ہے تجھ کو خُو واعظ
کہا تُو مان لے سودا کا توبہ کر اس سے
لب و دہن کے تئیں کرکے شست و شو واعظ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰پھٹے دہن کے تئیں اپنے ، کر رفو واعظ
مجھے یہ فکر ہے تُو اپنے ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ
خدا کے واسطے چُپ رہ ، اتر تُو ممبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ تُو بے وضو واعظ
سنا کسی سے تُو نامِ بہشت ، پرتجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ
بتوں کی حسن پرستی سے کیا خلل دیں میں
خدا نے دوست رکھا ہے رخِ نکو واعظ
ثبوتِ حق کی کریمی سبھوں پہ ہے لیکن
تری تو نفیِ کرم پر ہے گفتگو واعظ
ڈروں ہوں میں نہ کریں رند تیری ڈاڑھی کو
تبرکات میں داخل ہر ایک مو واعظ
ہزار شیشہء مے اس میں تُو چھپایا ہے
تری جو پگڑی ہے یہ صورتِ سبو واعظ
سخن وہ ہے کہ موثر دلوں کا ہو ناداں
یہ پوچ گوئی ہے جس سے ہے تجھ کو خُو واعظ
کہا تُو مان لے سودا کا توبہ کر اس سے
لب و دہن کے تئیں کرکے شست و شو واعظ
اب نواب مرزا خان داغ دہلوی کے چند شعر :
مے پی تو سہی توبہ بھی ہوجائے گی زاہد
کمبخت قیامت ابھی آئی نہیں جاتی
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حور کے واسطے زاہد نے عبادت کی ہے
سیر تو جب ہے کہ جنت میں نہ جانے پائے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ملے زاہدِ پیر کو حور توبہ
وہاں ہوں گےرعنا جواں کیسے کیسے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
رندانِ بے ریا کی ہے صحبت کسے نصیب
زاہد بھی ہم میں بیٹھ کے انسان ہوگیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ تثلیث کی تردید تو کرتے نہیں کچھ
گھر میں بیٹھے ہوئے والتین پڑھا کرتے ہیں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حالِ دنیا سے بے خبر ہیں آپ ۰۰۰ گو تقدس مآب بے شک ہیں
شیخ جی پر یہ قول صادق ہے ۰۰۰ چاہِ زمزم کے آپ مینڈک ہیں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
لاوڈ سپیکر جب سے ملاوں کےہاتھ آیا قتیل
ایک اچھی شے وبالِ جان بن کر رہ گئ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ہم نے دیکھا ہے دہر میں اے شوقؔ
مولوی بد تمیز ہوتے ہیں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
سر محشر گناہ گاروں کی صف میں
اماں دیکھو تو کتنا مولوی ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
انسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی
بد قسمتی سے آپ بھی انسان ہوگئے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جیسے دوزخ کی ہوا کھاکر ابھی آئے ہے
کس قدر واعظِ مکار ڈراتا ہے مجھے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جنت کی دیوار پہ چڑھکے ۰۰۰ میں نے اور شیطان نے دیکھا
سہمی سہمی حور کے پیچھے ۰۰۰ وحشی مُلّا دوڑ رہا تھا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ممبر پہ جو پھٹکار رہا ہے داڑھی
یہ دیو جو ناچے تو مزا آجائے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ مت گھر سے نکل آج کہ خوباں کے حضور
گول دستارتری باعثِ رسوائی ہے
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ حسیں عورتیں یہ تصویریں
رحمتِ ایزدی کی تفسیریں
جن کے ہونٹوں میں آبِ حیواں ہے
جن کے چہروں کا نام قرآں ہے
جن کے گیسو نگار خانے ہیں
جن کے زیرِ نگیں زمانے ہیں
جن کی ضو سے چراغ روشن ہیں
زندگی کے ایاغ روشن ہیں
جن کی آنکھوں سے مے ٹپکتی ہے
یہ جہنم میں جانے والی ہیں
آپ کی منطقیں نرالی ہیں
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ مغنی یہ دلربا ساحر
یہ مصور یہ خوشنوا شاعر
جن کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
جو ستاروں کو نور دیتے ہیں
نگہتِ گل ہے گفتگو جن کی
جن سے یزداں کلام کرتا ہے
جن کو سورج سلام کرتا ہے
یہ جہنم میں جانے والے ہیں
آپ کے فلسفے نرالے ہیں
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ عبائیں یہ داڑھیاں یہ صفیں
اجلی اجلی نظر فریب کفیں
یہ نگاہوں کے سرمگیں ڈورے
وعظ میں انگبیں کے ہلکورے
عنبر و عود کے لطیف غلاف
نامِ یزداں پہ گناہ معاف
مغبچوں کی حسیں مناجاتیں
ڈولتے جسم چاندنی راتیں
یہ مہک یہ سمن بروں کے ہجوم
یہ تبسم یہ چہچہے یہ نجوم
خلد کے کیا یہی وسیلے ہیں
آپ کے نین کیا نکیلے ہیں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
آخری تدوین: