سین خے

محفلین

مُلّا اوراردو شاعری ( تحریر : محمد شمشیر )

جب مستی و سرورکی حالت میں صوفیا کی زبان سے خلافِ شرع الفاظ نکل جاتے ہیں یا دانستہ مذہب کے خلاف اظہار خیال کیا جاتا ہے ، اسے صوفیانہ اصطلاح میں ’’ شطحیات ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی طرح شاعری میں روایت ہے کہ مُلّا ، شیخ ، واعظ اور زاہد پر لعن طعن کی جاتی ہے ، اسے اصطلاح میں ’’ مضحکات ‘‘ کہتے ہیں ۔ جس طرح شاعر خود عاشق نہ ہو اور عشقیہ اشعار کہتا ہو یا شاعر خود مے نوش نہ ہو لیکن مے نوشی پر مبنی شاعری کرنے کی روایت نبھاتا ہو ، اسی طرح شیخ و مُلّا کو تضحیک کا نشانہ بنانا ایک روایت ہی ہے ۔ لیکن شعرا روایت کے بجائے ایک اصولی موقف کے تحت بھی شیخ و ملا پر تنقید کرتے ہیں ۔ مثلاً اقبال نے اپنی شاعری میں ملا کی خوب خبر لی ہے اور بیشترنہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ ایسا کیا ہے ۔

ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنی کتاب ’’ دو اسلام ‘‘ میں مُلّا کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :

’’ مُلّا سے مراد متعصب ، تنگ نظر ، کم علم اور کوتاہ اندیش واعظ اور امام مسجد ہے ‘‘

جماعت ا لمسلمین کے رہنما مسعود احمد نے اپنی کتاب ’’ تفہیم الاسلام ‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب کا محققانہ جواب لکھا ہے اور سچ پوچھے تو برق صاحب کو لاجواب کردیا ہے ۔ مسعود صاحب اپنی کتاب میں برق صاحب کی مندرجہ بالا تعریف کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ ہم بھی اس کتاب میں لفظ مُلّا کو انہی معنوں میں استعمال کریں گے جن معنوں میں ڈاکٹر صاحب نے استعمال کیا ہے ‘‘
اقبال نے بھی مُلّا کو ’’ کم نگاہ و کورذوق و ہرزہ گرد ‘‘ کہا ہے ۔

ان تعریفوں کے حوالے سے اظہار خیال آگے آتا ہے ، پہلے اقبال کے کلام کی طرف چلتے ہیں ۔

اقبال ’’ ضربِ کلیم ‘‘ کی نظم ’’ توحید ‘‘ میں کہتے ہیں :

آہ اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

’’ ضرب کلیم ‘‘ کی نظم ’’ غلاموں کی نماز ‘‘ میں پیش اماموں کے طویل سجدوں پر اس طرح معترض ہیں :

طویل سجدہ اگر ہے تو کیا تعجب ہے
ورائے سجدہ غریبوں کو اور ہے کیا کام

’’ ضرب کلیم ‘‘ کی نظم ’’مستی کردار ‘‘ میں لکھتے ہیں :

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
مُلّا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

’’ ضرب کلیم ‘‘ کی نظم ’’ مہدی برحق ‘‘ سے ایک شعر :

پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدتِ گفتار ہے نے جدتِ کردار
نظم ’’ مُلّا اور بہشت ‘‘ ملاحظہ ہو :

میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرتِ مُلّا کو مِلا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے الٰہی میری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب ولبِ کِشت
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنِشت

’’ بال جبریل ‘‘ کی ایک غزل سے ایک شعر :

میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں مُلّا ہو غازی

بال جبریل سے ایک اور شعر :

مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی

’’ ارمغان حجاز ‘‘ سے ایک شعر :

ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب

’’ بانگِ درا ‘‘ سے ایک شعر :

امیدِ حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہے

’’ بانگ درا ‘‘ سے :

عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

ایک شعر اور :

کرے گی داورِ محشر کو شرمسار اک روز
کتابِ صوفی و مُلّا کی سادہ اوراقی

مشہور نقاد اور اقبال شناس خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں :

’’ اقبال نے سچ کہا تھا کہ چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعاروں میں ، لیکن مُلّا پر اس نے بے استعارہ اور بے نقط تبرّا بھی کیا ہے ۔ اس پر بھی ملا ناراض نہیں ہوئے ۔ یہ شاعری کا معجزہ ہے یا اقبال کی کرامات ۔ لیکن اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مُلّا جو ملائیت کی سیرت وکردار کے اس خاکے کو پڑھتا ہے، وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ دوسرے ملاؤں کی نسبت ہے اور دوسرے ملا ایسے ہی ہوتے ہیں ، میں بفضلہ ایسا نہیں ہوں ‘‘

میرے خیال میں اقبال نےعام سیدھے سادے ملاؤں کے مقابلے میں علما اور مفتیوں کی زیادہ طعن وتشنیع کی ہے مگر یہ لوگ سمجھتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں کہ اقبال نے ان پر نہیں بلکہ عام جاہل ملاؤں پر تنقید کی ہے ۔ اوپر کی گئ تعریفیں میرے خیال میں اس لیے وضع کی گئ ہیں کہ ملا اور عالم کے درمیان فرق پیدا کیا جاسکے ۔ ایک عام ملا اوردوسرے عام شخص کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ۔ یہ توزر خرید مفتی ہوتے ہیں جو ملوکیت کے آلہ کار بنتے ہیں اور جن کے فتاویٰ جابر حکمران اہلِ حق کو روندنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اس نوع کے مفتیوں کے بارے میں مصطفیٰ زیدی لکھتے ہیں :

حیات کے لیے بنیاد ہے نمودِ خیال
تجھے خبر نہیں انسان کیسے جیتا ہے
تیری غذا میں شہیدوں کا خون شامل ہے
ترا وجود تعفن کا دودھ پیتا ہے
درندگی کے مقدر پہ ناچنے والے
درندگی کا مقدر بدلتا رہتا ہے

اس کے علاوہ اس طرح کے علما نے دین کے اندر نفرت کی بنیاد پر بے شمار فرقے بناتے ہیں، دوسروں کو کافر قرار دیکر بہشت صرف اپنے لیے مختص خیال کرتے ہیں جبکہ اقبال کا عقیدہ ہے کہ بہشت پر تمام اچھے انسانوں کا حق ہے ۔ اسی لیے انہوں نے ’’جاوید نامہ ‘‘ میں نیطشے ، وشوامتر، راجہ بھر تری ہری اور طاہرہ بابیہ جیسے غیر مسلموں کو اطرافِ بہشت میں دکھایا ہے ۔

اقبال کے مزید دو شعر پیش کرتا ہوں اور اقبا ل کا تذکرہ سمیٹتاہوں ۔ ارمغان حجاز کی نظم ’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ میں ابلیس کا پہلا مشیر کہتا ہے :

یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مُلّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
’’ بال جبریل ‘‘ سے ایک شعر :

احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پاژند

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

میرتقی میرنے شیخ کا لفظ بہت زیادہ استعمال کیا ہے اور اس کی تضحیک کی روایت کو نبھایا ہے ۔ یہ لفظ اردو شاعری میں قول و فعل میں تضاد کی علامت بن گیا ہے ۔ میر کے چھے غزلیہ دیوان ہیں ، میں صرف ان کے دیوانِ اول سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں :

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا ، رات کو تھا میخانے میں
جُبہ، حرقہ، کُرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہلِ دیں
گر آوے شیخ پہن کر جامہ قرآن کا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان
جس پہ شب احتلام ہوتا ہے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
عجب شیخ جی کی ہے شکل وشمائل
ملےگا تو صورت سے بیزار ہوگا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ کی تو نماز پر مت جا
بوجھ سر کا سا ڈال آتا ہے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کچھ کم نہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار
دارو پلاکے شیخ کو آدم سے خر کیا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بن عصا شیخ یک قدم نہ رکھے
راہ چلتا نہیں یہ خر بے چوب

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دلِ بے رحم گیا شیخ لیے زیرِ زمیں
مرگیا پر یہ کہن گبر مسلماں نہ ہوا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
سودا کا شمار اردو کے بڑے کلاسیکی شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کا ایک شعر :

عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
سودا کا ایک اور شعر :

ناصح تو آدمی ہو تو میں مانوں تیری بات
حشرات کی طرح سے زمیں کا بخار ہے

سودا کی ایک قطعہ بند غزل :

رہے وہ معنیِ قرآں ، کہے جو تو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے ، کر رفو واعظ
مجھے یہ فکر ہے تُو اپنے ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ
خدا کے واسطے چُپ رہ ، اتر تُو ممبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ تُو بے وضو واعظ
سنا کسی سے تُو نامِ بہشت ، پرتجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ
بتوں کی حسن پرستی سے کیا خلل دیں میں
خدا نے دوست رکھا ہے رخِ نکو واعظ
ثبوتِ حق کی کریمی سبھوں پہ ہے لیکن
تری تو نفیِ کرم پر ہے گفتگو واعظ
ڈروں ہوں میں نہ کریں رند تیری ڈاڑھی کو
تبرکات میں داخل ہر ایک مو واعظ
ہزار شیشہء مے اس میں تُو چھپایا ہے
تری جو پگڑی ہے یہ صورتِ سبو واعظ
سخن وہ ہے کہ موثر دلوں کا ہو ناداں
یہ پوچ گوئی ہے جس سے ہے تجھ کو خُو واعظ
کہا تُو مان لے سودا کا توبہ کر اس سے
لب و دہن کے تئیں کرکے شست و شو واعظ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اب نواب مرزا خان داغ دہلوی کے چند شعر :

مے پی تو سہی توبہ بھی ہوجائے گی زاہد
کمبخت قیامت ابھی آئی نہیں جاتی

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حور کے واسطے زاہد نے عبادت کی ہے
سیر تو جب ہے کہ جنت میں نہ جانے پائے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ملے زاہدِ پیر کو حور توبہ
وہاں ہوں گےرعنا جواں کیسے کیسے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
رندانِ بے ریا کی ہے صحبت کسے نصیب
زاہد بھی ہم میں بیٹھ کے انسان ہوگیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اکبر الہ آبادی کے چند شعر :

شیخ تثلیث کی تردید تو کرتے نہیں کچھ
گھر میں بیٹھے ہوئے والتین پڑھا کرتے ہیں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
حالِ دنیا سے بے خبر ہیں آپ ۰۰۰ گو تقدس مآب بے شک ہیں
شیخ جی پر یہ قول صادق ہے ۰۰۰ چاہِ زمزم کے آپ مینڈک ہیں

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
ندا فاضلی کا ایک شعر ہے :

اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
قتیل شفائی کا ایک شعر :

لاوڈ سپیکر جب سے ملاوں کےہاتھ آیا قتیل
ایک اچھی شے وبالِ جان بن کر رہ گئ

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
شوق بہرائچی کا ایک شعر :

ہم نے دیکھا ہے دہر میں اے شوقؔ
مولوی بد تمیز ہوتے ہیں

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
کسی کا ایک شعر ہے :

سر محشر گناہ گاروں کی صف میں
اماں دیکھو تو کتنا مولوی ہے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
کسی کا شعر ہے :

انسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی
بد قسمتی سے آپ بھی انسان ہوگئے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
ایک اور شعر :

جیسے دوزخ کی ہوا کھاکر ابھی آئے ہے
کس قدر واعظِ مکار ڈراتا ہے مجھے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
کسی شاعر کے یہ دو شعر :

جنت کی دیوار پہ چڑھکے ۰۰۰ میں نے اور شیطان نے دیکھا
سہمی سہمی حور کے پیچھے ۰۰۰ وحشی مُلّا دوڑ رہا تھا

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
کشفی ملتانی کا ایک شعر:

رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
جوش ملیح آبادی کا ایک شعر :

ممبر پہ جو پھٹکار رہا ہے داڑھی
یہ دیو جو ناچے تو مزا آجائے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
ولیؔ کا ایک شعر :

شیخ مت گھر سے نکل آج کہ خوباں کے حضور
گول دستارتری باعثِ رسوائی ہے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰​
آخر میں عبدالحمید عدم کی ایک نظم :

شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ حسیں عورتیں یہ تصویریں
رحمتِ ایزدی کی تفسیریں
جن کے ہونٹوں میں آبِ حیواں ہے
جن کے چہروں کا نام قرآں ہے
جن کے گیسو نگار خانے ہیں
جن کے زیرِ نگیں زمانے ہیں
جن کی ضو سے چراغ روشن ہیں
زندگی کے ایاغ روشن ہیں
جن کی آنکھوں سے مے ٹپکتی ہے
یہ جہنم میں جانے والی ہیں
آپ کی منطقیں نرالی ہیں
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ مغنی یہ دلربا ساحر
یہ مصور یہ خوشنوا شاعر
جن کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
جو ستاروں کو نور دیتے ہیں
نگہتِ گل ہے گفتگو جن کی
جن سے یزداں کلام کرتا ہے
جن کو سورج سلام کرتا ہے
یہ جہنم میں جانے والے ہیں
آپ کے فلسفے نرالے ہیں
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ عبائیں یہ داڑھیاں یہ صفیں
اجلی اجلی نظر فریب کفیں
یہ نگاہوں کے سرمگیں ڈورے
وعظ میں انگبیں کے ہلکورے
عنبر و عود کے لطیف غلاف
نامِ یزداں پہ گناہ معاف
مغبچوں کی حسیں مناجاتیں
ڈولتے جسم چاندنی راتیں
یہ مہک یہ سمن بروں کے ہجوم
یہ تبسم یہ چہچہے یہ نجوم
خلد کے کیا یہی وسیلے ہیں
آپ کے نین کیا نکیلے ہیں

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ربط: فیس بک پیج، ذوق ادب
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
ج۔۔۔ کی بدبو یہاں تک آرہی ہے ;):chill:

ویسے انتخاب اچھا ہے۔ اور کافی کچھ نمکینیات باقی ہیں وہ بھی پیش کردیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
آخر میں عبدالحمید عدم کی ایک نظم :

شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ حسیں عورتیں یہ تصویریں
رحمتِ ایزدی کی تفسیریں
جن کے ہونٹوں میں آبِ حیواں ہے
جن کے چہروں کا نام قرآں ہے
جن کے گیسو نگار خانے ہیں
جن کے زیرِ نگیں زمانے ہیں
جن کی ضو سے چراغ روشن ہیں
زندگی کے ایاغ روشن ہیں
جن کی آنکھوں سے مے ٹپکتی ہے
یہ جہنم میں جانے والی ہیں
آپ کی منطقیں نرالی ہیں
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ مغنی یہ دلربا ساحر
یہ مصور یہ خوشنوا شاعر
جن کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
جو ستاروں کو نور دیتے ہیں
نگہتِ گل ہے گفتگو جن کی
جن سے یزداں کلام کرتا ہے
جن کو سورج سلام کرتا ہے
یہ جہنم میں جانے والے ہیں
آپ کے فلسفے نرالے ہیں
شیخ صاحب خدا خدا کیجیے
یہ عبائیں یہ داڑھیاں یہ صفیں
اجلی اجلی نظر فریب کفیں
یہ نگاہوں کے سرمگیں ڈورے
وعظ میں انگبیں کے ہلکورے
عنبر و عود کے لطیف غلاف
نامِ یزداں پہ گناہ معاف
مغبچوں کی حسیں مناجاتیں
ڈولتے جسم چاندنی راتیں
یہ مہک یہ سمن بروں کے ہجوم
یہ تبسم یہ چہچہے یہ نجوم
خلد کے کیا یہی وسیلے ہیں
آپ کے نین کیا نکیلے ہیں

یہاں پہ اس نظم میں کچھ غلطیاں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر علامہ کا ضرب المثل مصرع "دین مُلا فی سبیل اللہ فساد" کیوں نہیں لکھا مصنف موصوف نے؟ اب سمجھ میں آیا کہ مذکورہ مصرع علامہ کی ایک فارسی کتاب میں ہے اور مصنف موصوف نے شاید اردو کتابوں ہی میں "سرچ" لگا کر کام چلایا ہے اس لیے رہ گیا، بہرحال شعر حاضر ہے (اس میں فارسی والی کوئی بات نہیں، تراکیب عام فہم ہیں اور اگر یہ نہ لکھا جائے کہ فارسی شعر ہے تو اس آسانی سے اردو شعر سمجھا جا سکتا ہے)۔

دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد
اقبال، جاوید نامہ
:)
 
مضمون نگار کا مقصد سمجھ آیا نہ ناقل کا۔
اگر مقصد واضح کردیا جائے تو مختلف انسانی طبقات پر اشعار جمع کرنے کا کارِ خیر ہم بھی کریں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
 

سین خے

محفلین
مضمون نگار کا مقصد سمجھ آیا نہ ناقل کا۔
اگر مقصد واضح کردیا جائے تو مختلف انسانی طبقات پر اشعار جمع کرنے کا کارِ خیر ہم بھی کریں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

اسے صرف علمی بحث کے لئے شئیر کیا گیا ہے اور اس کو شئیر کرنے کے پیچھے کوئی اور مقصد نہیں ہے۔
جن بھی طبقات پر اشعار شامل کرنا چاہیں، ضرور کریں کس نے روکا ہے۔

ج۔۔۔ کی بدبو یہاں تک آرہی ہے ;):chill:

ویسے انتخاب اچھا ہے۔ اور کافی کچھ نمکینیات باقی ہیں وہ بھی پیش کردیں۔

کس کی بو؟ :)
میرا اردو شاعری سے تعلق صرف قاری کی حد تک ہے اور وہ بھی کافی کمزور ہے کیونکہ اشعار یاد نہیں رہتے ہیں سو کچھ بھی اپنے طور پر پیش کرنے سے قاصر ہوں۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
اکثر و بیشتر شیخ، واعظ اور ملا پر اشعار پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ میری دلچسپی اس ٹرینڈ کا اردو شاعری میں پھیلاؤ معلوم کرنے میں ہے۔ کیا نامور شعرا سب علما دین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے رہے ہیں یا ان کے نزدیک کچھ برے ہیں۔ اس تضحیک اور تمسخر کے پیچھے مقصد کیا ہے؟

یہ ٹرینڈ آجکل کے شعرا میں بھی کافی دیکھنے میں آتا ہے۔ شیخ، واعظ پر اشعار دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
 

سین خے

محفلین
میں سوچ رہا تھا کہ اس موضوع پر علامہ کا ضرب المثل مصرع "دین مُلا فی سبیل اللہ فساد" کیوں نہیں لکھا مصنف موصوف نے؟ اب سمجھ میں آیا کہ مذکورہ مصرع علامہ کی ایک فارسی کتاب میں ہے اور مصنف موصوف نے شاید اردو کتابوں ہی میں "سرچ" لگا کر کام چلایا ہے اس لیے رہ گیا، بہرحال شعر حاضر ہے (اس میں فارسی والی کوئی بات نہیں، تراکیب عام فہم ہیں اور اگر یہ نہ لکھا جائے کہ فارسی شعر ہے تو اس آسانی سے اردو شعر سمجھا جا سکتا ہے)۔

دینِ کافر فکر و تدبیرِ جہاد
دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد
اقبال، جاوید نامہ
:)

وارث بھائی آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ اقبال نے جاہل ملاؤں کو اپنی شاعری میں نشانہ بنایا ہے یا پھر علما اور مفتیان دین کی خبر لی ہے؟

یا اقبال کے نزدیک سب ہی ایک جیسے تھے؟
 

سین خے

محفلین
ویسے یہ تو سمندر کے کنارے سے چند ہی چنیدہ موتیوں کا نمونہ ہیں ۔
اردو اور فارسی شاعری میں تو یہ ایک بحر ذخار ہے۔ :)

جی درست فرمایا :) عاطف بھائی آپ کے نزدیک شعرا کیوں ملا پر اشعار کہتے رہے ہیں؟ کیا ان کو واقعی کوئی اختلاف تھا یا پھر ٹرینڈ بنتا گیا اور سب اس کو فالو کرتے گئے؟

آجکل کے شعرا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں ان کے یہاں بھی جا بجا ایسے اشعار پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ کیا سب ٹرینڈ فالو کر رہے ہیں یا واقعی ان سب کو کوئی اختلاف یا دشمنی ہے؟
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
ملا ایک derogatory term ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لفظ ملا تضحیک کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اردو شاعری میں شیخ اور واعظ کا بھی ذکر ملتا ہے۔

ملا اگر جاہلوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے تو واعظ اور شیخ سے کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا شیخ اور واعظ سے مراد علما دین ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ اقبال نے جاہل ملاؤں کو اپنی شاعری میں نشانہ بنایا ہے یا پھر علما اور مفتیان دین کی خبر لی ہے؟

یا اقبال کے نزدیک سب ہی ایک جیسے تھے؟
میرے خیال میں اس بات کو rule of thumb کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ اقبال سمیت جتنے بھی اردو د فارسی شعرا نے ملاؤں، یا واعظوں یا زاہدوں یا صوفیوں کی زجر و توبیخ کی ہے وہ سب جاہل مُلاؤں، ریاکار زاہدوں، ڈھونگی صوفیوں اور یاوہ گو واعظوں کے متعلق ہے۔ حقیقی علما و صوفیا کا اقبال بھی بہت احترام کرتے تھے اور چند ایک کے علاوہ دیگر تمام شعرا بھی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیوں ملا پر اشعار کہتے رہے ہیں؟ کیا ان کو واقعی کوئی اختلاف تھا
یہ تو ایک تحقیق کا بڑا منفرد میدان ہوگا :) جس میں کئی گہری باتیں سامنے آنے کا امکان ہو ۔ البتہ یہ ایک متحقق امر ہے کہ یہ رواج فارسی کی انتہائی پختہ شعری روایتوں میں سے ہے جس کی جڑین بہت گہری ہیں میرے خیال میں تو اردو میں فارسی ہی سے درآمد ہوا ہے جیسا کہ اور فارسی روایتی اسالیب اردو میں رائج ہوئے ۔ جسے شبلی نعمانی نے کہا کہ اردو شاعری فارسی شعر کا دودھ پی کر ہی بڑی ہوئی ۔
حقیقی مذہبی مقامات اور کرداروں کا جو احترام اور مقام فارسی یا اردو میں ہے وہ بھی کچھ کم نہیں البتہ شعر کیوں کہ سرکاسٹک اسلوب کے تیکھے پن میں موثر ہوتا ہے اسی لیئے یہ شراب رند پیرمغاں میخانے وغیرہ کے استعارات اور تشبیہات وجود میں ائے اور انہی سے شعراء کو مشق سخن کا ایک وسیع و عمیق میدان ملا اور یوں اس میں خوب طبع آزمائیاں ہوئیں ۔تاہم اندازہ یہی ہے کہ یہ طنز حقیقت میں ظاہر پرست ملا کی طرف ہی وارد ہوتا ہے جو حقیقتاََ موضوع کی کنہ اور گہرائی سے واقف نہیں ۔
 

ابو ہاشم

محفلین
ملا ایک derogatory term ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لفظ ملا تضحیک کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اردو شاعری میں شیخ اور واعظ کا بھی ذکر ملتا ہے۔
عربی میں مَلْآن کا مطلب ہے بھرا ہوا۔ تو ملّا کا مطلب بنتا ہے علم سے بھرا ہوا۔ ملا علی قاری دینی لٹریچر میں ایک محترم شخصیت ہیں۔ افغانستان میں ملا ایک قابلِ احترام لفظ ہے جیسے ملا عمر۔
 
Top