داغ غزل: دم نہیں، دل نہیں، دماغ نہیں

دم نہیں، دل نہیں، دماغ نہیں
کوئی دیکھے تو اب وہ داغ نہیں

گر قناعت نہیں ہے انساں کو
کبھی حاصل اسے فراغ نہیں

ایسے ویرانے میں وہ کیوں آئیں
خانۂ دل ہے خانہ، باغ نہیں

بات کرنی تو بار ہے تم کو
بات سننے کا بھی دماغ نہیں

تھی زمانے میں روشنی جس کی
ہائے اس گھر میں اب چراغ نہیں

مست کر دے نگاہ سے ساقی
حاجتِ ساغر و ایاغ نہیں

فصلِ گل جوش پر ہے اب کے برس
دلِ افسردہ باغ باغ نہیں

کھوج ملتا ہے ہر مسافر کا
عمرِ رفتہ کا کچھ سراغ نہیں

داغؔ کو کیوں مٹائے دیتے ہو
دل سے ہو دور یہ وہ داغ نہیں

٭٭٭
داغؔ دہلوی
 
آخری تدوین:
اب دیکھیں، اب درست بھی ہے اور واضح بھی. :)
زبردست انتخاب ہے۔
داغؔ کو کیوں مٹائے دیتے ہو
دل سے ہو دور یہ وہ داغ نہیں
کھوج ملتا ہے ہر مسافر کا
عمرِ رفتہ کا کچھ سراغ نہیں
 
Top